Ref. No. 1491/43-1313
الجواب وباللہ التوفیق:۔ داڑھی مونڈنے پریا ایک مشت سے کم کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن بال کاٹنے یا سر مونڈنے کی اجرت جائز ہے۔ اس لئے ایسا شخص قربانی کے جانور میں اگر حصہ لیتاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، حلال کمائی کے ساتھ شرکت مان کر تمام شرکاء کی قربانی درست ہوگی۔ البتہ اگر کسی کا کام محض داڑھی تراشنا ہو اور پوری کمائی اس کی یہی ہو اور وہ اس ناجائز آمدنی کے ساتھ قربانی کے جانور میں شرکت کرے تو بھی بعض علماء نے گنجائش دی ہے تاہم ایسے شخص کو شریک نہ کیاجائے یہی احوط ہے، اور اگرشریک کرلیا ہے تو اس شخص سمیت سب کی قربانی درست ہوجائے گی۔ اگر شریک کرتے وقت یقینی طور پر معلوم نہ ہوکہ اس کی رقم حرام ہے تو بھی باقی شرکاء کی قربانی درست ہوجائے گی۔
ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل أو شيء من اللهو ولا على الحداء وقراءة الشعر ولا غيره ولا أجر في ذلك، وهذا كله قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد، لأنه معصية ولهو ولعب (البنایۃ علی الھدایۃ اجارۃ المشاع 10/183)۔ ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا (المبسوط للسرخسی، باب الاجارۃ الفاسدۃ 16/38) (ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتحب الزکاۃ ویورث عنہ) لان الخلط استہلاک اذا لم یمکن تمییزہ عند امام ابی حنیفہ (شامی، باب زکوۃ الغنم 2/290)
وان مات احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ اذبحو عنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا لقصد القربۃ من الکل ولو ذبحوھا بلا اذن الورثۃ لم یجزھم لان بعضھا لم یقع قربۃ وان کان شریک الستۃ نصرانیا او مریدا اللحم لم یجز عن واحد منہم لان الاراقۃ لا تتجزا ھدایہ لما مر۔ وقولہ وان کان شریک الستۃ نصرانیا الخ وکذا اذا کان عبدا او مدبرا یرید الاضحیۃ لان نیتہ باطلۃ لانہ لیس من اھل ھذہ القربۃ فکان نصیبہ لحما فمنع الجواز اصلا بدائع۔(شامی، کتاب الاضحیۃ 6/326) زکاۃ المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوھبانیۃ انہ یجزئ عندالبعض۔(شامی، باب زکوۃ الغنم 2/291)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند