الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جو سجدہ واجب ہوا تھا وہ تلاوت کا سجدہ تھا(۳) نماز کا نہیں تھا؛ پس اگر سجدہ تلاوت نماز میں واجب ہوا تو نماز میں اس کو ادا کرنا چاہئے لیکن اگر بھول جائے تو بھی سجدہ سہو واجب نہیں اس لیے سجدہ سہو تو نماز کے کسی واجب کے سہواً ترک سے واجب ہوتا ہے اور یہ واجب نماز کا واجب نہیں تلاوت کا ہے پس اگر چھوٹ جائے تو بھی نماز درست ہوگئی۔(۱)
(۳) والسجدۃ واجبۃ في ہذہ المواضع علی التالی والسامع سواء قصد سماع القرآن أولم یقصد۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’باب في سجدۃ التلاوۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۶۳)
(۱) وفي التجنیس: وہل یکرہ تاخیرہا عن وقت القراء ۃ ذکر في بعض المواضع أنہ إذا قرأہا في الصلاۃ فتاخیرہا مکروہ، وإن قرأہا خارج الصلاۃ لایکرہ تاخیرہا۔ وذکر الطحاوي: أن تاخیرہا مکروہ مطلقاً وہو الأصح اھـ۔ وہي کراہۃ تنزیہیۃ في غیر الصلاتیہ لأنہا لو کانت تحریمیۃ لکان وجوبہا علی الفور ولیس کذلک۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’باب سجود التلاوۃ‘‘: ج۲، ص: ۲۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص83