23 views
امام کے پیچھے قرأت کرنے والے کی نماز کا حکم:
(۸۵)سوال: حضرت مفتی صاحب! ہمارے محلہ میں ایک شخص سعودی عرب سے واپس آیا ہے جب وہ نماز پڑھتا ہے تو امام صاحب کے پیچھے خواہ امام صاحب جہری یا سری نماز پڑھا رہے ہوں مذکورہ شخص امام کی اقتداء میں مسلسل قرأت کرتا رہتا ہے، یہ شکایت ہماری مسجد کے کئی مصلیوں کی ہے، مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ امام کے پیچھے قرأت کرنے والے شخص کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟ نیز مذکورہ شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی نمازوں کے سلسلے میں شریعت اسلامیہ کیا حکم دیتی ہے؟ ’’بینوا وتوجروا‘‘
فقط: والسلام
المستفتی: محمد جمیل احمد خان، ہردوئی
asked Jan 22 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: امام کے پیچھے قرأت کرنے کو فقہاء احناف نے مکروہ لکھا ہے؛ البتہ اس شخص کی گزشتہ پڑھی ہوئی تمام نمازیں درست ہیں ان نمازوں کا دہرانا ضروری نہیں ہے۔
ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، فرمان باری تعالیٰ ہے {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا الخ}(۱) اس آیت میں مفسرین کے قول کے مطابق، جہری (بآواز بلند قرأت ہو) اور سری (آہستہ آواز سے قراء ت ہو) دونوں نمازوں میں مقتدی کے لیے حکم ہے کہ وہ امام کے پیچھے قراء ت نہ کرے، اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۲) یعنی جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قراء ت اس مقتدی کی قراء ت ہے۔ فقہ حنفی کی کتابوں میں اس کی مزید تفصیل موجود ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے تلاوت نہ کیا کرے۔
’’وقال أبو حنیفۃ و أحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلا في السریۃ ولا الجھریۃ…، وقال علي ابن أبي طلحۃ، عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما في الآیۃ  قولہ: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَہ۲۰۴}، یعني: في الصلاۃ المفروضۃ‘‘(۱)
’’والمؤتم لا یقرء مطلقاً، قولہ: ولا الفاتحۃ تقدیرہ لا غیر الفاتحۃ ولا الفاتحۃ‘‘
’’قولہ (في السریۃ) یعلم منہ نفی (القراء ۃ) في الجھریۃ  بالأولی، والمراد التعریض‘‘
’’ومانسب لمحمد ضعیف کما بسطہ الکمال (فإن قرء کرہ تحریما) وتصح في الأصح۔ وفي (درر البحار) عن مبسوط خواھر زادہ أنھا تفسد ویکون فاسقا، وھو مروي عن عدۃ من الصحابۃ فالمنع أحوط (بل یستمع) إذ جھر (وینصت) إذا أسر لقول أبي ھریرۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ: (کنا نقرأ خلف الإمام) فنزل: {وَإِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَأَنْصِتُوْا}(۲)
(۱) سورۃ الأعراف: ۲۰۴۔
(۲) أخرجہ ابن ماجۃ، في سننہ، ’’کتاب إقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘:ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰، حکم الحدیث حسن۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورہ نحل‘‘: ج۲، ص: ۶۱۔
(۲) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ،  مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص:۲۶۶، زکریا دیوبند۔
)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص145

 

answered Jan 22 by Darul Ifta
...