الجواب وباللہ التوفیق: وہ زمین جو ناحق طریقہ سے قبضہ کی گئی ہے ایسی مغصوبہ زمین پر نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، البتہ اس پر پڑھی گئی نمازیں ادا ہوگئیں ان نمازوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ صاحب مراقی الفلاح نے شرح نور الایضاح میں لکھا ہے:
’’و تکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ، و إذا ابتلی بالصلاۃ في أرض الغیر و لیست مزروعۃً، أو الطریق إن کانت لمسلم صلی فیہا، و إن کانت لکافر صلی في الطریق‘‘(۱)
’’(قولہ: صلی فیہا) لأن الظاہر أنہ یرضی بہا لأنہ ینال أجراً من غیر اکتساب منہ‘‘(۲)
’’الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ، و لکن یعاقب بظلمہ، فما کان بینہ وبین اللّٰہ تعالی یثاب، وما کان بینہ و بین العباد یعاقب، کذا في مختار الفتاوی‘‘(۳)
’’و في الواقعات: بنی مسجداً علی سور المدینۃ لاینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ فلم یخلص للّٰہ تعالی، کالمبني في أرض مغصوبۃ…‘‘(۴)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۸۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ ودخول البساتین و بناء المسجد في أرض الغصب‘‘: ج ۲، ص۴۴، ۵۴، زکریا دیوبند
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص153