33 views
تفسیر جلالین میں سورۃ طه کی آیت ۴۹ کی تفسیر میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہے کہ "اقتصر علیہ لانه الاصل" اور حاشیہ میں اس کی وضاحت یہ کہ کر کی گئ ‌ہے کہ "ای نادی  موسی وحدہ بعد مخاطبتہ لھما معا لان موسی ھو الاصل فی الرسالة و هارون تبع وردء و وزير". تو اس کی روح سے موسی علیہ السلام کو اصل کہنا کیا غلط ہوگا۔
asked Jan 29 in قرآن کریم اور تفسیر by Mohammad Umar

1 Answer

Ref. No. 2816/45-4401

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی تھے، جب حضرت موسی علیہ السلام  الواح دریافت کرنے کے لئے کوہ طور پر گئے تو حضرت ہارون کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ اس دوران سامری نامی ایک شخص نے ایک گوسالہ (بچھڑا) بنایا اور بنی‌ اسرائیل کو اس کی پرستش کی دعوت دی اور حضرت ہارون انہیں اس کام سے روکنے میں ناکام رہے۔ جب حضرت موسی علیہ السلام واپس آئے تو آپ نے ان کے ساتھ دینی حمیت میں سختی کی اور پھر اللہ سے  دونوں کے لئے مغفرت طلب کی ۔

قرآنی آیات کے مطابق جب حضرت موسی کو نبوت کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ نے اللہ  سے درخواست کی کہ حضرت ہارون کو ان کا وزیر بنا دیا جائے کیونکہ حضرت ہارون حضرت موسی کی نسبت فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔اسی طرح قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو یکتا پرستی کی طرف دعوت دینے میں بھی حضرت ہارونؑ حضرت موسیؑ کے ساتھ تھے۔ قرآن میں حضرت ہارون کی نبوت کی طرف اشارہ ہوا ہے۔سورہ صافات میں کتاب آسمانی سے بہرہ مند ہونا، صراط مستقیم کی ہدایت اور نیکوکار ہونے میں حضرت موسی اور حضرت ہارون دونوں کو ایک دوسرے کا شریک قرار دیا گیا ہے۔ ان تمام تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ  حضرت موسی علیہ السلام کو اصل کہنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Feb 3 by Darul Ifta
...