Ref. No. 1602/43-1297
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔کمپنی کا مینیجر کمپنی کے مالک کا وکیل اور امین ہوتاہے، کمپنی اس کو ماہانہ تنخواہ دیتی ہے۔ اس کا کسی سے معاملہ کرکے زیادہ پیسے لینا اور کمیشن لینا مالک کے ساتھ خیانت اور دھوکہ ہے جو جائز نہیں ہے، اس لئے اس کا اس طرح کا مطالبہ شرعا ناجائز ہے، اور آپ کا بل میں اضافہ کرکے رقم اس کو دینا بھی رشوت کے زمرے میں آتاہے جو حرام ہے۔ اس لئے ایسا معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ روزی کا مالک اللہ تعالی ہے، مینیجر کو سمجھاکر اگر کام چلتاہو تو بہتر ہے ورنہ آپ کسی اور کمپنی سے بھی رابطہ کرسکتے ہیں، اور کوئی دوسرا کام بھی تلاش کرسکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ میں کوئی اور کام نہیں جانتا، بلاوجہ کی بات ہے، ہاتھ پیر مارنےسے اور محنت کرنے سے راستے کھل جاتے ہیں۔ ابتداء بہت بڑا نقصان نظرآتاہے لیکن جب اللہ کے لئے کوئی جائز کام شروع کرتاہے تو ہر قدم پر مدد آتی ہے۔ مایوس نہ ہوں۔ جرات کے ساتھ مینیجر سے بات کریں اور رشوت لینے دینے سے گریز کریں۔
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (سورۃ المائدة: 2)
إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (درر الحکام في شرح مجلة الأحکام، الکتاب الحادي عشر: الوکالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة:1467 ،ج:3؍573،ط:دارالجیل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند