Ref. No. 2494/45-3854
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) شرعی احکام سے لاعلمی کوئی قابل قبول عذر نہیں ہے۔ مطلقہ عورت کا عدت کے دوران کسی دوسرے مرد سے نکاح حرام ہے، اس لئے عدت میں کیا ہوا مذکورہ نکاح منعقد نہیں ہوا۔ (2) عورت نے اپنے ہونے والے شوہر کو اس کی خبر نہیں دی، اور شوہرنے لاعلمی میں اس عورت سے عدت کے دوران نکاح کرکے اس کے ساتھ صحبت بھی کرلی، جبکہ نکاح منعقد نہ ہونے کی وجہ سے اس سے صحبت حرام تھی، اس لئے دونوں میں فوری جدائیگی لازم ہے۔ (3) اب یہ عورت یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی فسخ کے الفاظ کہہ دے کہ میں یہ نکاح ختم کرتاہوں یا لڑکاکہہ دے کہ میں تجھے چھوڑتا ہوں وغیرہ تو یہ عقد ختم ہو جائے گا۔ پھرعورت کے ساتھ چونکہ وطی بالشبہہ ہوچکی ہے اس وجہ سے عدت کے تین حیض گزارے گی اور پھر ان دونوں کا از سر نو نکاح ہوسکے گا۔ (4) فون پر اس طرح نکاح منعقد نہیں ہوتاہے، بلکہ لڑکایالڑکی اگر کسی کو اپنے نکاح کا وکیل بنادیں اور پھر دوگواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں کرایاجائے تو پھر نکاح درست ہو گا۔
وَلَا تَعْزِمُوْا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتّٰى يَبْلُغَ الْكِتَابُ اَجَلَهٗ۔ (القرآن الکریم: البقرۃ :۲۳۵)
لا يجوز للأجنبي خطبة المعتدة صريحا سواء كانت مطلقة أو متوفى عنها زوجها كذا في البدائع۔ (وفی الھندیۃ (۵۳۴/۱)
أما نكاح منكوحة الغير ومعتدته فالدخول فيه لا يوجب العدة إن علم أنها للغير لأنه لم يقل أحد بجوازه فلم ينعقد أصلا قال فعلى هذا يفرق بين فاسده وباطله في العدة ولهذا يجب الحد مع العلم بالحرمة لأنه زنى كما في القنية وغيرها اھ۔ (الشامیۃ (۱۳۲/۳)
الباب الثالث عشر فی العدۃ: لو تزوجت في عدة الوفاة فدخل بها الثاني ففرق بينهما فعليها بقية عدتها من الأول تمام أربعة أشهر وعشر وعليها ثلاث حيض من الآخر ويحتسب بما حاضت بعد التفريق من عدة الوفاة كذا في معراج الدراية۔ (الھند یۃ: ۵۳۳/۱):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند