88 views
قرآن کریم میں آیات متشابہات اور ان کا صحیح محمل:
(۳۸)سوال:قرآن کریم میں بہت سی آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’ید، وجہ‘‘ کا تذکرہ ہے مثلاً: {بل یداہ مبسوطتان} وغیرہ اس طرح آیتوں کا کیا محمل ہے، بظاہر اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھی ہاتھ ہیں جس طرح کے ہمارے ہاتھ ہیں کیا یہی مطلب ہے؟ اگر نہیں تو ان آیات متشابہات کا صحیح محمل کیا ہے۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد راشد، دہلی
asked Aug 20, 2023 in قرآن کریم اور تفسیر by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن وحدیث میں بہت سی نصوص ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’’ید، وجہ‘‘ وغیرہ کا اثبات کیا گیا ہے اس طرح کی آیات واحادیث کو متشابہات کہا جاتا ہے، اس سلسلے میں حضرات اہل علم کے دو نقطہ نظر ہیں۔ سلف اور متقدمین کا نقطہ نظر تفویض کا ہے یعنی نصوص میں جن صفات کا اثبات کیا گیا ہے وہ سب بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے لیے ان کی شایان شان ثابت ہیں؛ لیکن یہ صفات مخلوقات کی صفات کی طرح نہیں ہیں اور نہ ہمیں ان اوصاف کی کوئی کیفیت اور حقیقت معلوم ہے۔ دوسرا نقطہ نظر خلف اور متأخرین کا ہے۔ وہ حضرات ایسی تأویل کرتے ہیں جو ذات باری تعالیٰ کے شایان شان ہوں، مثلاً: ’’ید‘‘ کے معنی قدرت، ’’وجہ‘‘ کے معنی ذات کے ہیں اس کو تنزیہ مع التأویل کہتے ہیں پہلے نظریے کو تنزیہ مع التفویض کہتے ہیں، علماء دیوبند کا اصل مسلک تواول ہے؛ البتہ دوسرے نظریے کو بھی حق سمجھتے ہیں، چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: اس عقیدہ میں حضرات سلف کے مسلک پر ہوں کہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں مگر ’’کنہ‘‘ اس کی معلوم نہیں۔(۱)
’’وإنما لیسلک في ہذا المقام مذہب السلف من أئمۃ المسلمین قدیما وحدیثا وہو إمرارہا کما جاء ت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل‘‘(۲)
’’وأما ما قال المتأخرون في أئمتنا في تلک الآیات یؤولونہا بتأویلات صحیحۃ في اللغۃ والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ومن الید القدرۃ إلی غیر ذلک تقریباً إلی أفہام القاصرین فحق أیضاً عندنا‘‘(۱)
(۱) أشرف علي التھانويؒ، إمداد الفتاویٰ: ج ۶، ص: ۲۵۔
(۲)ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۵۴۔
(۱) خلیل أحمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۳۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص

answered Aug 20, 2023 by Darul Ifta
...