Ref. No. 2555/45-3882
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مسجد میں پڑی ہوئی کوئی چیز پائی جائے تو وہ ’’لقطہ ‘‘ کے حکم میں ہے، اگر اس سامان کے اس جگہ رہنے دینے سے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو متولی پر لازم ہے کہ اس سامان کی حتی الوسع تشہیر کرے نمازوں کے بعد اعلان کرے، اور جس مدرسہ سے بچے آتے ہوں ان سے رابطہ کرکے اصل مالک تک اس لقطہ کو پہونچانے کی کوشش کرے۔ اگر باربار تشہیر اور پوری کوشش کے باوجود اصل مالک کا پتا نہ چل سکے تو اس کو اپنے پاس محفوظ رکھے، تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل ادائیگی میں آسانی ہو اور کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ لیکن اگرمالک کا پتا دشوار ہو اور مایوسی ہی ہاتھ لگے تو پھر مالک ہی کی طرف سے وہ لقطہ کسی فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر ملتقط خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔تاہم اس کا خیال رہے کہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد اگر اصل مالک آجاتاہے تو یا تو وہ صدقہ کو نافذ کردے اور اس پر راضی ہوجائے تو ٹھیک ہے ، اور اگر اپنے سامان کا مطالبہ کرے تو پھر ملتقط پر ضمان لازم ہوگا۔
"وللملتقط أَن ينْتَفع باللقطة بعد التَّعْرِيف لَو فَقِيراً، وَإِن غَنِياً تصدق بهَا وَلَو على أَبَوَيْهِ أَو وَلَده أَو زَوجته لَو فُقَرَاء، وَإِن كَانَت حقيرةً كالنوى وقشور الرُّمَّان والسنبل بعد الْحَصاد ينْتَفع بهَا بِدُونِ تَعْرِيف، وللمالك أَخذهَا، وَلَايجب دفع اللّقطَة إِلَى مدعيها إلاّ بِبَيِّنَة، وَيحل إِن بَين علامتها من غير جبر". (ملتقی الابحر ، جلد ١،ص: ٥٢٩-٥٣١،ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند