77 views
سوشل میڈیا کے ذریعہ تبلیغ:
(۴۴)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں :
ایک تبلیغی عالم بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ دعوت وتبلیغ پوری امت پرفرض ہے اور اس کی فرضیت پر مشکوۃ المصابیح اور بخاری کی مندرجہ حدیثیں پیش کی ہیں۔
’’عن جابر قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أوحی اللّٰہ إلی ملک من الملائکۃ أن أقلب مدینۃ کذا وکذا علی أہلہا قال: إن فیہ عبدک فلانا لم یعصک طرفۃ عین قال: أقلبہا علیہ وعلیہم، فإن وجہہ لم یتمعر لی ساعۃ قط (المعجم الأوسط) قالت زَیْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَقُلْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ: أَنُہْلِکُ وَفِینَا الصَّالِحُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الخَبَث (بخاری) عَنْ حُذَیْفَۃَ بْنِ الیَمَانِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہِ لَتَأْمُرُنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ المُنْکَرِ أَوْ لَیُوشِکَنَّ اللَّہُ أَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا مِنْہُ ثُمَّ تَدْعُونَہُ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ‘‘ (ترمذی) اب سوال یہ ہے کہ اس سے تبلیغ کی فرضیت ثابت ہے یا تبلیغ کاکام مستحب ہے اور اگر تبلیغ فرض ہے، تو سوال یہ ہے کہ تبلیغ کس طریقہ سے کی جائے جماعت میں نکل کر یا موبائل واٹس ایپ کے ذریعہ یا فیس بک کے ذریعہ بھی جائز ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: عمر فاروق، الحنفی :متعلّم جامعہ حسینہ دیوبند
asked Oct 5, 2023 in بدعات و منکرات by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا فرض عین ہے، (۱)خواہ مدرسہ کے ذریعہ ہو یا خانقاہ کے ذریعہ یا جماعت کے ذریعہ؛ البتہ تبلیغ فرض کفایہ ہے جو عالم دین نے تبلیغ کو فرض کہا اس کی مراد یہی ہوگی کہ دین کا سیکھنا فرض ہے، جہاں تک ان کے دلائل ہیں، ان سے تبلیغ کی فرضیت ضرور ثابت ہوتی ہے، لیکن اس کا فرض عین ہونا نہیں ثابت ہوتا ہے، (۲)  تبلیغ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ فرض کفایہ ہے اور اس کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ جس طرح بھی یہ کام انجام دیا جائے درست ہے؛ اس لیے سوشل میڈیا کے ذریعہ یا واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعہ بھی کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے، یہ جائز ہے؛ اس لیے کہ مقصد لوگوں کو بھلی بات بتانا اور برائی سے روکنا ہے۔
’’قال العلامہ الآلوسی في ہذہ الآیۃ ولتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر ویأمرون المعروف وینہون عن المنکر؛ إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایۃ۔(۱) وأعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج إلیہ وفرض کفایۃ و ہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ(۲) قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلمہ ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ‘‘۔(۳)
(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۴)
(۲) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۴، ص: ۲۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵)

(۳) ’’أیضاً‘‘۔

----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص344
 

answered Oct 5, 2023 by Darul Ifta
...