73 views
خواتین کے بیعت کرنے کے احکام:
(۵)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں
 (۱) ایک عورت کو بیعت ہونے کے لیے اس کے شوہر کا پہلے سے بیعت ہونا ضروری ہے؟
(۲) اگر شوہر بیعت نہ ہو تو کیا عورت کے لیے شوہر کی اجازت لازمی ہوگی؟
(۳) اور اسی طرح کوئی نابالغ لڑکی بیعت ہونا چاہے تو کیا اپنے والد سے اجازت لینا لازمی ہوگی؟
(۴) خواتین اپنے ذاتی مسائل شیخ سے کیسے دریافت کر سکتی ہیں، اس حال میں جب کہ وہ اپنے شوہر کے موبائل کا استعمال کریں اور وہ کوئی بات اپنے شوہر سے شیئر نہ کرنا چاہے؟
(۵) بعض خواتین مذکورہ وجہ سے اپنی بات شیخ تک نہیں پہنچا سکتی، کیا شیخ سے رابطہ کے لیے خواتین کسی خاتون کی مدد لے سکتی ہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: یعقوب میمن، اندور
asked Oct 25, 2023 in بدعات و منکرات by azhad1

1 Answer

الجواب:بیعت اس لیے کی جاتی ہے کہ مرشد کی رہنمائی اوراس کی ہدایت پر عمل کرنے سے راہ سنت پر چلنا اور احکام خداوندی کے مطابق زندگی گزارنا آسان ہوجاتا ہے، بیعت ہونا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں، اور اصلاح نفس کی جس طرح مرد کو ضرورت ہوتی ہے اسی طرح عورت کو بھی ضرورت ہے تاہم عورت کی بیعت کے لیے شوہر کا بیعت ہونا ضروری نہیں ہے، ہاں بیعت کے لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے۔
’’إعلم أن البیعۃ سنۃ لیست بواجبۃ و لم یدل دلیل علی تاثیم تارکہا و لم ینکر أحد علی تارکہا‘‘(۱) ’’قال الشیخ ظفر أحمد العثماني: وبالجملۃ فالتصوف عبارۃ عن عمارۃ الظاہر والباطن أما عمارۃ الظاہر فالأعمال الصالحۃ وأما عمارۃ الباطن فذکر اللّٰہ وترک الرکون إلی ماسواہ وکان یتیسر ذلک للسلف بمجرد الصحبۃ الخ،(۲) قال عروۃ: فأخبرتني عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یمتحنہن بہذہ الآیۃ:
{ٰٓیاَ یُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِذَا جَآئَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّط اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِھِنَّج فَإِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ إِلَی الْکُفَّارِط لَا ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلَاھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّط وَأٰ تُوْھُمْ مَّآ أَنْفَقُوْاط وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوْ ھُنَّ إِذَآ أٰ تَیْتُمُوْھُنَّ أُجُوْرَھُنَّط وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقْتُمْ وَلْیَسْئَلُوْا مَآ أَنْفَقُوْاط ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِط یَحْکُمُ بَیْنَکُمْط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌہ۱۰ وَإِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ أَزْوَاجِکُمْ إِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَأٰ تُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ أَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ أَنْفَقُوْاط وَاتَّقُوا اللّٰہَ  الَّذِيْٓ أَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَہ۱۱ ٰٓیأَیُّھَا النَّبِيُّ إِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی أَنْ لَّا یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلَا یَسْرِقْنَ وَلَا یَزْنِیْنَ وَلَا یَقْتُلْنَ أَوْلَادَھُنَّ وَلَا یَأْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ أَیْدِیْھِنَّ وَأَرْجُلِھِنَّ وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَط إِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌہ۱۲} (۳)
 قال عروۃ: قالت عائشۃ: فمن أقر بہذا الشرط منہن، قال لہا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: قد بایعتک کلاما یکلمہا بہ، واللّٰہ ما مست یدہ ید امرأۃ قط في المبایعۃ، وما بایعہن إلا بقولہ‘‘۔ (۱)

 اسی طرح شادی سے پہلے جب کہ لڑکی اپنے والد کی تربیت میں ہوتی ہے بہتر ہے کہ والد کی اجازت سے کسی مصلح سے بیعت ہوجائے۔ اصلاح کے لیے بہتر ہے کہ عورت اپنے شوہر کو ہی واسطہ بنائے اور انہی کے ذریعہ اپنے مرشد سے رہنمائی حاصل کرے؛ لیکن اگر عورت کسی وجہ سے ایسا نہیں کرنا چاہتی ہے، تو شیخ کے گھر کی کسی خاتون سے مدد لے سکتی ہے۔(۲)
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدھلويؒ، القول الجمیل، الفصل الثاني:ص: ۱۲۔
(۲) ظفر أحمد العثمانيؒ، إعلاء السنن، کتاب الأدب والتصوف والإحسان: ج ۱۸، ص: ۴۴۹۔
(۳) الممتحنۃ: ۱۰ تا ۱۲) (البقرۃ: ۱۷۳۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیہ، ’’کتاب الشروط: باب ما یجوز من الشروط في الإسلام والأحکام والمبایعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸۶، رقم: ۲۷۱۱۔
(۲) قولہا واللّٰہ ما مست ید رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ید امرأۃ قط غیر أنہ یبایعہن بالکلام فیہ أن بیعۃ النساء بالکلام من غیر أخذ کف وفیہ أن بیعۃ الرجال بأخذ الکف مع الکلام الخ۔ (النووي، شرح مسلم، ’’کتاب الإمارۃ: باب کیف بیعۃ النساء‘‘: ج ۲،ص: ۱۳۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص404
 

answered Oct 25, 2023 by Darul Ifta
...