الجواب وباللّٰہ التوفیق: دوبارہ سوال نامہ بھی کسی ایک فریق کا معلوم ہوتا ہے، اگر یہ واقعہ صحیح ہے، تو دونوں فریق کے بیانات درج ہونے چاہئیں۔
دوسری بات: حکم اور فیصل طے کرنے سے پہلے آپسی رضامندی سے کسی کو حکم بنانا چاہیے تھا، پھر حکم کی بات کوقبول کرنی چاہئے، اگر ایسا نہیں ہوگا، تو کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکے گا، تیسری بات یہ کہ اب بھی واقعہ کی صداقت کی کوئی عملی دلیل نہیں ہے؛ اس لیے نفس واقعہ پر ہم کوئی رائے نہیں ظاہر کر سکتے ہیں، تاہم جو سوالات کیے گئے ہیں ان کے جوابات ذکر کیے جاتے ہیں۔
(۱) توبہ کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا اور اطاعت پر جمنا ہے۔ توبہ کی حقیقت میں چار چیزیں داخل ہیں: (۱) گناہ پر دل میں ندامت ہو (۲) فوری طور پر گناہ کو ترک کرے (۳) اور پختہ ارادہ کرے کہ دو بارہ یہ گناہ نہیں کرے گا، چناںچہ علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں ’’ہي الندم بالقلب وترک المعصیۃ في الحال والعزم علی أن لا یعود إلی مثلہا وأن یکون ذلک حیاء من اللّٰہ‘‘(۱) (۴) اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے یا حقوق اللہ سے اس کی تلافی کرنا۔ مثلاً اگر نماز چھوڑی ہیں، تو توبہ کے ساتھ ان نمازوں کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔(۲) اگر روزہ چھوڑا ہے، تو توبہ کے بعد روزے کی قضاء کرے تب توبہ کی تکمیل ہوگی۔ اسی طرح اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہو، تو اس کی تلافی ہر حال میں کرے، مثلاً کسی کا مال لیا ہے، تو وہ مال واپس کرے، کسی کی غیبت کی ہے، تو محض توبہ سے غیبت کے گناہ معاف نہیں ہوں گے؛ بلکہ جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی بھی مانگے، غرض کہ حقوق کی مکمل تلافی کرے اور جس کا جو حق ہے اس کو ادا کرے۔
(۲) جو امام خائن یا فاسق ہو، تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے،(۳) لیکن اگر اس نے نماز پڑھائی، تو نماز ہو گئی ان نمازوں کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ امام کے لیے امامت کرنا مکروہ ہے لیکن نماز ادا ہوجاتی ہے۔ نماز نیک اور فاسق ہر ایک کے پیچھے درست ہو جاتی ہے حدیث ’’صلو کل بر وفاجر‘‘(۴)
(۴) زکوٰۃ کے سلسلے میں جواب دے دیا گیا تھا اگر وصول کرنے والے نے زکوٰۃ کو اس کے مصرف میں استعمال نہیں کیا، تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوئی اور وصول کرنے والا اس کا ذمہ دار ہوگا۔(۵)
(۵) فتوی حکم شرعی کا نام ہے یعنی مفتی سوال کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا حکم بتاتا ہے اس پر عمل کرنا اس کی دینی ذمہ داری ہوتی ہے۔
(۱) تفسیر قرطبي: ج ۵، ص: ۹۱۔
(۲) عن أنس بن مالک -رضی اللّٰہ عنہ- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من نسي صلاۃ فلیصلہا إذا ذکرہا لا کفارۃ لہا إلا ذلک، قال قتادۃٰ: وأقم الصلاۃ لذکري۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ‘‘: ج ۱، ص:۵۸، رقم: ۶۸۴)
ما یقضی بین الناس یوم القیامۃ في الدماء وظواہر الحدیث دالۃ علی أن الذي یقع أولاً المحاسبۃ علی حقوق اللّٰہ تعالیٰ قبل حقوق العباد۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: ‘‘: ج ۲، ص: ۷)
(۳) ویکرہ تقدیم الفاسق أیضاً لتساہلہ في الأمور الدینیۃ فلا یؤمن من تقصیرہ في الإتیان بالشرائط۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۱۷، دار الکتاب)
(۴) ملا علي قاري، عمدۃ القاري شرح البخاري: ج ۱۱، ص: ۴۸۔
(۵) {اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیمٌہ۶۰} (سورۃ التوبہ: ۶۰)
توخذ من أغنیائہم فترد علی فقرائہم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الزکاۃ، باب من لا تحل لہ الصدقۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۴، رقم: ۱۷۷۲)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص292-293-294