الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ تو ایمان کی کمزوری کی بات ہے؛ بلکہ امام کو جماعت میں اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اسی کے ذریعہ سے میری نماز باجماعت ادا ہوجاتی ہے۔ اور مقتدیوں کو امام کا مشکور ہونا چاہئے کہ اس کی وجہ سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے۔ امام کا منصب یہ ہے کہ بھلائی کے کاموں کی ترغیب دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے، امام کے اس کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی کسی کو اس پر ناگواری ہونی چاہئے کہ امام روزی سمجھ کر حق لینے سے روک دیا جائے۔(۱)
(۱) قال ابن عباس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أحق ما أخذتم علیہ أجراً کتاب اللّٰہ وقال الشعبي لا یشترط المعلم إلا أن یعطي شیئاً فیقلبہ، وقال الحکم: لم أسمع أحداً کرہ أجر المعلم وأعطی الحسن عشرۃ دراہم ولم یر ابن سیرین بأجر القسام بأسا۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإجارۃ، باب ما یعطی في الرقیۃ علی أحیاء العرب بفاتحۃ الکتاب الخ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۴، نعیمیہ دیوبند)
قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، وفي روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص314