40 views
مسبوق کا امام کے ساتھ سلام پھیرنے کا حکم:
(۱۷)سوال: مسبوق امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام جان کر یا بھول کر ایک طرف یا دونوں طرف سلام پھیردے تو مسبوق پر الگ سے سے سجدہ سہو لازم ہے یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبداللہ، باغپت
asked Jan 18 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلہ میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس نے بھولے سے امام کے ساتھ متصل سلام پھیرا تھا تو اس صورت میں اس پر سجدہ سہو واجب نہ ہوگا لیکن اگر مسبوق نے امام کے متصل سلام نہ پھیرا اس کے لفظ السلام کہنے میں امام سے تاخیر ہوئی ہو تو اس صورت میں بقیہ رکعات پوری کرنے کے بعد سجدہ سہو کرنا اس پر لازم ہے،اسی طرح اگر مسبوق بھولے سے دونوں طرف سلام پھیر دیا اگر اس نے نماز کے منافی کوئی کام نہ کیا ہو تو آخر میں سجدہ سہوکرلے اور اگر مسبوق عمداً امام کے ساتھ سلام پھیرا ہو یا یہ سمجھتے ہوئے سلام پھیرا ہو کہ اس پر امام کے ساتھ سلام پھیرنا لازم ہے، تو اس صورت میں اس کی نماز باطل ہو جائے گی، اعادہ ضروری ہوگا اور جن صورتوں میں مسبوق پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اگر اس نے سجدہ سہو نہ کیا تو وقت کے اندر نماز واجب الاعادہ ہوگی۔
’’قولہ والمسبوق یسجد مع إمامہ … فإن سلم: فإن کان عامداً فسدت، وإلا لا، ولا سجود علیہ إن سلم سہواً قبل الإمام أو معہ؛  وإن سلم بعد لزمہ لکونہ منفرداً حینئذ، بحر۔ وأراد بالمعیۃ المقارنۃ، وہو نادر الوقوع کما في شرح المنیۃ۔  وفیہ :  ولو سلم علیٰ ظن أن علیہ أن یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء‘‘(۱)
’’ولو سلم ساہیا إن بعد إمامہ لزمہ السہو وإلا لا۔ ’’قولہ ولم سلم ساہیا: قید بہ لأنہ لو سلم مع الإمام علی ظن أنہ علیہ السلام معہ فہو سلام عمد فتفسد کمافي البحر عن الظہیریۃ۔ قولہ: لزمہ السہو لأنہ منفرد في ہذہ الحالۃ … قولہ وإلا لا … أي وإن سلم معہ أو قبلہ لا یلزمہ لأنہ مقتد في ہاتین الحالتین‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص:۵۴۶، ۵۴۷، زکریا۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود أو بہما مع الإمام الخ‘‘: ج ۲، ص: ۳۵۰۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص45

answered Jan 20 by Darul Ifta
...