الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ طریقہ سے چھوٹی ہوئی رکعتیں پڑھنا بھی درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ افضل طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر بیٹھ جائے، تشہد پڑھے، پھر تیسری رکعت پڑھے اور نماز پوری کرے۔
’’وأما وجوب القعدۃ بعد قضاء الأولیین من الرکعتین اللتین سبق بہما فنقول القیاس أن یقضی الرکعتین ثم یقعد إلا أنا استحسنا وترکنا القیاس بالأثر وہو ما روي أن جندبا ومسروقا ابتلیا بہذا فصلی جندب رکعتین ثم قعد وصلی مسروق رکعۃ ثم قعد ثم صلی رکعۃ أخری فسألا ابن مسعود عن ذلک فقال کلاکما أصاب ولو کنت أنا لصنعت کما صنع مسروق، وإنما حکم بتصویبہما لما أن ذلک من باب الحسن إلی وأما حکم القراء ۃ في ہذہ المسألۃ فنقول: إذا أدرک مع الإمام رکعۃ من المغرب ثم قام إلی القضاء یقضی رکعتین ویقرأ في کل رکعۃ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ‘‘(۱)
’’ثم قضی أي المأموم الرکعتین بتشہدین، لما قدمنا من أن المسبوق یقضی آخر صلاتہ من حیث الأفعال، فمن ہذہ الحیثیۃ ما صلاہ مع الإمام آخر صلاتہ، فإذا أتی برکعۃ مما علیہ کانت ثانیۃ صلاتہ فیقعد ثم یأتی برکعۃ ویقعد‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل الکلام في مسائل السجدات یدور علی أصول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۷۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص46