20 views
نماز کی حالت میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا:
(۱۰)سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ: بعض ملکوں میں ہم نے دیکھا کہ قرآن کریم نماز کی حالت میں امام صاحب دیکھ کر پڑھتے ہیں اگر ہمارے یہاں بھی ایسا ہو جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ جب ہم نے اپنے یہاں ایک مولوی صاحب کے سامنے یہ بات رکھی تو انہوں نے بتایا کہ حنفی مسلک میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، کیا یہ قول صحیح ہے؟ تفصیل سے جواب لکھ دیں مہربانی ہوگی۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد زبیر انصاری، سنبھل، یوپی
asked Jan 21 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب و باللہ التوفیق: امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی وضاحت علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں کی ہے کہ: اگر نمازی قرآن پاک دیکھ کر پڑھے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس کی نماز فاسد ہوجائے گی امام صاحب ؒ کے نزدیک اس کی دو وجہ ہیں، ایک تو یہ کہ قرآن پاک کا اٹھانا، اوراق کا پلٹنا اور اس میں دیکھنا یہ مجموعہ نماز کی جنس سے خارج اور عمل کثیر ہے جس کی نماز میں کوئی گنجائش نہیں ہے؛ لہٰذا اس سے نماز فاسد ہوجائے گی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ نمازی قرآن پاک سے سیکھ رہا ہے اس لیے کہ قرآن پاک سے پڑھنے والے کو متعلّم کہا جاتا ہے تو یہ استاذ سے سیکھنے کے مترادف ہوگیا اور اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اس علت کی بنیاد پر دونوں صورتیں مفسد ہوں گی خواہ قرآن اٹھاکر اوراق پلٹتا رہے خواہ قرآن سامنے رکھ کر بغیر اوراق کے پلٹے ہوئے پڑھے۔
’’لو قرأ المصلي من المصحف فصلاتہ فاسدۃ عند أبي حنیفۃ۔۔۔۔ ولأبي حنیفۃ طریقتان:إحداہما أن ما یوجد من حمل المصحف و تقلیب الأوراق والنظر فیہ أعمال کثیرۃ لیست من أعمال الصلاۃ، ولا حاجۃ إلی تحملہا في الصلاۃ فتفسد الصلاۃ والطریقۃ الثانیۃ : أن ہذا یلقن من المصحف فیکون تعلما منہ، ألا تری أن من یأخذ من المصحف یسمی متعلما فصار کما لو تعلم من معلم؛ وذا یفسد الصلاۃ کذا ھذا، وہذہ الطریقۃ لا توجب الفصل بین ما إذا کان حاملا للمصحف مقلبا للأوراق، وبین ما إذا کان موضوعا بین یدیہ ولا یقلب الأوراق۔‘‘(۱)
علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’وذکروا لأبي حنیفۃ في علۃ الفساد وجہین : إحداہما أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر والثاني أنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ، وعلی الثاني لا فرق بین الموضوع والمحمول عندہ، وعلی الأول افترقا وصحح الثاني في الکافي تبعاً لتصحیح السرخسي، وعلیہ لو لم یکن قادراً علی القراء ۃ إلا من المصحف فصلی بلا قراء ۃ ذکر الفضلي أنہا تجزیہ وصححہا في الظہیریۃ عدمہ والظاہر أنہ مفرع علی الوجہ الأول الضعیف بحر‘‘(۲)
جب کہ صاحبین رحمہا اللہ کا قول اس سلسلے میں یہ ہے کہ نماز تام ہوجائے گی لیکن تشبہ کی بنا پر مکروہ ہوگی اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے؛ اہل کتاب بھی نماز میں تورات اور انجیل دیکھ کر پڑھتے ہیں اور یہود کی مشابہت سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے۔ جیسا کہ علامہ کاسانیؒ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں لکھا ہے کہ: امام ابویوسفؒ ومحمدؒ کے نزدیک نماز تام ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی اس لیے کہ اس میں اہل کتاب سے مشابہت ہے۔
’’وعند أبي یوسف ومحمد تامۃ ویکرہ۔۔۔۔۔۔۔ وقال إلا أنہ یکرہ عندہما لأنہ تشبہ بأہل الکتاب‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فسادِ نماز کے قائل ہیں، صاحبین رحمہما اللہ کراہت کے قائل ہیں؛ لہٰذا نماز میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا مفسد نماز ہے، اس لیے کہ حالتِ نماز میں مصحف اٹھاکر قرأت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صلوا کما رأیتموني أصلي‘‘(۱) نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل و حکم دوران نماز ہاتھ کو باندھنے کا ہے جب کہ مصحف کو اٹھانے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھنے کی بجائے ہاتھ میں مصحف تھامے رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کوسیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ثم وضع یدہ الیمنی علی الیسری‘‘(۲) پھر آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھا۔ اور حکم کو نقل کرتے ہوئے سیدنا سہل بن سعد بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔
’’کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلاۃ‘‘(۳)
مذکورہ روایات کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جنہوں نے آپ کو مسئلہ بتایا ہے وہ صحیح ہے اور حنفی مسلک میں قرآن کریم دیکھ کر پڑھنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، صاحبین رحمہما اللہ اگرچہ کراہت کے قائل ہیں؛ لیکن مفتی بہ قول امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔

(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’ فصل: وأما بیان حکم الاستخلاف‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع سمع المصلی إسم اللّٰہ تعالیٰ‘‘: ج ۱، ص: ۶۲۴)۔
(۳) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل وأما بیان حکم الاستخلاف‘‘: ج ۱، ص: ۵۴۳)۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر، ج۱، ص۸۸، رقم۶۳۱)۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع یدہ الیمنی علی الیسری بعد تکبیرۃ الإحرام‘‘: ج۱، ص:۱۷۳، رقم: ۴۰۱)۔
(۳) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۲، رقم: ۷۴۰)۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص76


 

answered Jan 21 by Darul Ifta
...