الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں جب کہ متنفل مفترض کہ پیچھے نماز میں شامل ہوگیا، تو وہ بھی مثل دوسرے مقتدیوں کے ہوگیا اور اس کی شمولیت متحقق ہونے کی وجہ سے مثل دوسرے مقتدیوں کے اس کو لقمہ دینا جائز ہوگیا اس طرح لقمہ دینے سے نماز میں کوئی خرابی لازم نہیں آئے گی۔(۳)
(۳) والصحیح أن ینوي الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ قالوا: ہذا إذا أرتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ، أو بعدما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لاتفسد صلاۃ الفاتح بکل حال۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع: فیما یفسد الصلاۃ، و ما یکرہ فیھا‘‘ ج۱، ص:۱۵۷)
بخلاف فتحہ علی إمامہ فإنہ لایفسد مطلقاً لفاتح وآخذ بکل حال۔ قولہ: بکل حال أي سواء قرأ الإمام قدر ماتجوز بہ الصلاۃ أم لا، انتقل إلی آیۃ أخری أم لا، تکرر الفتح أم لا، ہو الأصح۔ (الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص88