الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں اگر کوئی حرکت ایسی کی گئی ہو جس کو عمل قلیل کہا جاسکے تو شرعاً اس کی گنجائش ہے اور اگر کوئی ایسا عمل ہو جس کو عمل کثیر کہا جائے تو شرعاً ایسے عمل سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ عمل قلیل و کثیر امام اعظمؒ کے نزدیک مبتلی بہ کی رائے پر موقوف ہے۔ بعض فقہاء نے اس کی تفصیل یہ تحریر کی ہے اگر کوئی ایسا عمل کیا جائے جس میں ایک ہاتھ لگایا جائے تو عمل قلیل ہوگا اور اگر دو ہاتھ لگانے کی ضرورت پڑے تو عمل کثیر کہلائے گا اس تفصیل کے تحت مذکورہ فی السوال جزئیہ کتب فقہ میں موجود ہے؛ لیکن دونوں ہاتھوں سے کرتے کو نیچے کئے جانے پر عمل کثیر کی تعریف صادق نہیں آئی؛ اس لیے اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ لیکن اس کے کراہت شدیدہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں؛ اس لیے صرف ایک ہاتھ سے اگر ضرورت ہو، تو دامن کو صحیح کیا جاسکتا ہے۔
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اصلاح کی نیت سے ایک ہاتھ سے دامن کو نیچے کیا جائے، توکراہت نہیں اور اگر عادت کی وجہ سے کیا تو ایک ہاتھ سے مکروہ تنزیہی اور دو ہاتھ سے مکروہ تحریمی۔(۱)
(۱) (و) یفسدہا (کل عمل کثیر) لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ، أصحہا (ما لا یشک) بسببہ (الناظر) من بعید (فی فاعلہ أنہ لیس فیہا) وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل۔ (قولہ لیس من أعمالہا) احتراز عما لو زاد رکوعا أو سجودا مثلا فإنہ عمل کثیر غیر مفسد لکونہ منہا غیر أنہ یرفض، لأن ہذا سبیل ما دون الرکعۃ ط۔ قلت: والظاہر الاستغناء عن ہذا القید علی تعریف العمل الکثیر بما ذکرہ المصنف۔ تأمل۔ (قولہ ولا لإصلاحہا) خرج بہ الوضوء والمشی لسبق الحدث فإنہما لا یفسدانہا ط۔ قلت: وینبغي أن یزاد: ولا فعل لعذر احترازا عن قتل الحیۃ أو العقرب بعمل کثیر علی أحد القولین کما یأتی، إلا أن یقال: إنہ لإصلاحہا، لأن ترکہ قد یؤدي إلی إفسادہا۔ تأمل۔ (قولہ وفیہ أقوال خمسۃ أصحہا ما لا یشک إلخ) صححہ في البدائع، وتابعہ الزیلعي والولوالجي۔ وفي المحیط أنہ الأحسن۔ وقال الصدر الشہید: إنہ الصواب۔ وفي الخانیۃ والخلاصۃ: إنہ اختیار العامۃ۔ وقال في المحیط وغیرہ: رواہ الثلجي عن أصحابنا۔ حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۳۸۴، ۳۸۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص94