الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اتنے مال کا نقصان لازم آرہا ہوکہ مالک اس کو بآسانی برداشت نہیں کرسکتا؛ بلکہ اس کو تکلیف ہوگی، تو شرعاً نماز توڑنے کی رخصت واجازت ہے اور جس کو برداشت کرنے میں کوئی تکلیف نہ ہو جیسے آج کے دور میں ایک دو روپیہ، تو اجازت نہ ہوگی۔(۱)
(۱) یقطعہا لعذر إحرازاً لجماعۃ کما لوندت دابتہ أو فار قدرھا أو خاف ضیاع درہم من مالہ، … لم یفصل في الکتاب بین المال القلیل والکثیر، وعامۃ المشایخ قدروہ بدرہم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج۲، ص: ۵۰۳، ۵۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص95