الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسے بچوں کو جو چھوٹے اور ناسمجھ ہوں عیدگاہ میں نماز کے وقت نہ لے جانا چاہئے تاہم اگر بچہ چلا جائے اور اس کے نماز میں کھونے کا اندیشہ ہو تو اپنے پاس بٹھانے سے بھی نماز خراب نہیں ہوگی۔(۱)
(۱) في العلائیۃ: ویحرم إدخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم وإلا فیکرہ وفي الشامیۃ تحتہ: (قولہ ویحرم الخ) … والمراد بالحرمۃ کراہۃ التحریم … وإلا فیکرہ أی تنزیہا۔ تأمل۔ ( ابن عابدین، رد المحتار، ج۲، ص: ۴۲۹)
وفي التحریر المختار: (قول الشارح وإلا فیکرہ) أی حیث لم یبالوا بمراعاۃ حق المسجد من مسح نخامۃ أو تفل في المسجد وإلا فاذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم من ولیہم فلا کراہۃ في دخولہم ۱ہـ سندي۔ (التحریر المختار، ج۱، ص: ۸۶، المطبعۃ الکبری الأمیریۃ، مصر)
قال الرحمتي: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال، لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ انتہی۔ (التحریر المختار، ج۱، ص: ۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص117