الجواب وباللہ التوفیق: صورت میں مسئولہ میں اگر کوئی شخص بغیر ٹوپی اوڑھے ہوئے نماز پڑھتا ہے تو نماز ہو جاتی ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ فقہا نے لکھا ہے کہ بغیر کسی عذر کے محض غفلت اور سستی وتساہل میں بغیر ٹوپی کے کوئی نماز پڑھتا ہے تو یہ خلاف ادب اور مکروہ ہے؛ اس لیے اسے ایسے فعل سے اجتناب کرنا چاہئے۔
’’عن ہشام بن حسان عن الحسن قال: أدرکنا القوم ہم یسجدون علی عمائمہم، ویسجد أحدہم ویدیہ في قمیصہ‘‘(۱)
وکرہ صلاتہ حاسراً أي کاشفاً رأسہ للتکاسل ولا بأس بہ للتذلل‘‘(۲)
’’وتکرہ الصلاۃ … مکشوف الرأس‘‘(۳)
ان کا دعوی کہ ٹوپی پہننے کا ثبوت قرآن وحدیث سے نہیں ہے۔ غلط ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمامہ اور ٹوپی اوڑھنے کا ثبوت ملتا ہے، اس لیے بغیر علم کے کسی چیز کا اقرار وانکار کرنا صحیح نہیں ہے ان کو چاہیے کہ اپنے مقامی علماء سے رجوع کریں اور دینی معلومات حاصل کریں۔ ٹوپی اوڑھنے کے سلسلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ’’عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یلبس قلنسوۃ بیضاء‘‘(۴)
(۱) أخرجہ عبد الرزاق، في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب السجود علی العمامۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۰، رقم: ۱۵۶۶۔
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، : ۲،ص: ۴۰۷؛وجماعۃ من علماء الہندیۃ والفتاوی الھندیۃ: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
(۳) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي مع مراقي الفلاح: ص: ۳۵۹۔
(۴) مجمع الزوائد: ج ۵، ص: ۱۲۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص148