23 views
مسجد کی لائٹ بند کر کے نماز پڑھنا:
(۸۸)سوال: حضرت مفتی صاحب! عرض ہے کہ ہماری مسجد میں ایک مصلی ہمیشہ مسجد کی لائٹ بند کر کے نماز پڑھنے کی وکالت کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھنے سے قلب میں اطمنان حاصل ہوتا ہے اور اندھیرے میں نماز پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، میرا پوچھنا ہے کہ کیا کوئی اس طرح کی حدیث ہے؟ جو ثابت کرتی ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھیرے میں نماز ادا کی ہو؟ نیز میں نے کئی علماء سے ہی سن رکھا ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھنے سے نماز مکروہ ہو جاتی ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟ شرعی رہنمائی فرما کر ممنون فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: ایم رضی حیدر، حیدرآباد
asked Jan 22 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب و باللہ التوفیق: واضح رہے کہ روشنی ہو یا اندھیرا دونوں میں نماز پڑھنا جائز ہے۔ مرد ہو یا عورت دونوں اندھیرے میں نماز پڑھ سکتے ہیں جس طرح اجالے میں نماز پڑھنا جائز ہے اسی طرح اندھیرے میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے، ہاں اگر کسی کو اندھیرے میں وحشت ہورہی ہو یا قبلہ کا رخ یقینی طور پر معلوم نہ ہو سکے تو روشنی میں نماز پڑھنا بہتر ہے۔ بخاری شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اندھیرے میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ایک روایت منقول ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لیٹی ہوئی تھی اور میرے دونوں پیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبلہ کی جانب میں تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اشارہ کرتے تو میں اپنے دونوں پیروں کو سمیٹ لیتی جب آپ قیام میں جاتے تو میں پیروں کو پھیلا لیتی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس وقت گھروں میں چراغ نہیں ہوتے تھے۔
’’عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم، و رجلاي في قبلتہ، فإذا سجد غمزني فقبضتُ رجليَّ، فإذا قام بسطتُھما،  قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح‘‘(۱
’’أما باللیل فیصلي قائماً لأن ظلمۃ اللیل تستر عورتہ‘‘(۱)
’’وان علم بہ في صلوتہ أو تحول رایہ … ولو بمکۃ أو مسجد مظلم ولا یلزمہ قرع أبواب ومس جدران۔ وفي الشامیۃ تحتہ:  في الخلاصۃ إذا لم یکن في المسجد قوم والمسجد في مصر في لیلۃٍ مظلمۃٍ (قولہ ومس جدران) لأن الحائط لو کانت منقوشۃ لا یمکنہ تمییز المحراب من غیرہ، وعسی أن یکون ثم ھامۃ مؤذیۃً … وھذا إنما یصح في بعض المساجد فأما في الأکثر فیمکن تمییز المحراب من غیرہ في الظلمۃ بلا إیذاء‘‘(۲)
’’رجل صلی في المسجد في لیلۃ مظلمۃ بالتحري، فتبین أنہ صلی إلی غیر القبلۃ، جازت صلاتہ؛ لأنہ لیس علیہ أن یقرع أبواب الناس للسؤال عن القبلۃ‘‘(
۳)
مذکورہ عربی عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اندھیرے میں نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے؛ بلکہ حدیث سے ثابت ہے، البتہ نمازی اگر اپنی اور دوسروں کی سہولت کے لیے تھوڑی بہت روشنی کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ مناسب اور بہتر ہے تاکہ اندھیرے میں کوئی موذی جانور تکلیف نہ دے سکے یا قبلہ اندھیرے کی وجہ سے مشتبہ نہ ہو جائے۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ ، باب الصلاۃ علی الفراش‘‘: ج ۱، ص: ۵۶،رقم۳۸۲۔
(۱)الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد‘‘ ج۲، ص۸۵، زکریا دیوبند
(۲) الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ، مطلب مسائل التحري في القبلۃ‘‘: ج ۲، ص:۱۱۶، ۱۱۷، زکریا۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۲، زکریا دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص149

 

answered Jan 22 by Darul Ifta
...