الجواب وباللہ التوفیق: نماز کی حالت میں آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنے کے سلسلے میں ایک اصول یاد رکھیں کہ بغیر کسی عذر اور بلا ضرورت آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے، البتہ خشوع وخضوع یا وساوس سے بچنے کے لیے آنکھیں بند کی جائیں تومکروہ نہیں ہے؛ لہٰذا ذکر کردہ سوال میں آنکھ کھول کر تلاوت کرنے کی صورت میں آپ آیات کریمہ کی تلاوت نہیں کرپاتے ہیں اور بھول جاتے ہیں اس لیے ذہن کو انتشار سے محفوظ رکھنے کے لیے آنکھیں بند کر کے آپ کے لئے نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے، تاہم آنکھیں کھلی رکھ کر نماز پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے، نیز آنکھیں بند کر کے نماز پڑھنا مکروہ اس لیے ہے کہ حالت قیام میں سجدہ کی جگہ کو دیکھنا سنت ہے، اور آنکھیں بند کرنے کی صورت میں ترکِ سنت کی وجہ سے سنت ادا نہیں ہوئی اس لیے مکروہ ہے لہٰذا آنکھیں کھول کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے؛ جیسا کہ علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں لکھا ہے:
’’ویکرہ أن یغمض عینیہ في الصلاۃ؛ لما روي عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نہی عن تغمیض العین في الصلاۃ؛ ولأن السنۃ أن یرمي ببصرہ إلی موضع سجودہ، وفي التغمیض ترک ہذہ السنۃ؛ ولأن کل عضو وطرف ذو حظ من ہذہ العبادۃ فکذا العین‘‘(۱)
’’وتغمیض عینیہ للنہي إلا لکمال الخشوع، (قولہ إلا لکمال الخشوع) بأن خاف فوت الخشوع بسبب رؤیۃ ما یفرق الخاطر فلا یکرہ، بل قال بعض العلماء: إنہ الأولی ولیس ببعید۔ حلیۃ وبحر‘‘(۱)
’’(ویکرہ) (تغمیض عینیہ) إلا لمصلحۃ لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قام أحد کم في الصلاۃ فلا یغمض عینیہ لأنہ یفوت النظر للمحل المندوب ولکل عضو وطرف حظ من العبادہ وبرویۃ ما یفوت الخشوع ویفرق الخاطر ربما یکون التغمیض أولیٰ من النظر۔
’’قولہ (إلا لمصلحۃ) کما إذا غمضھما لرؤیۃ ما یمنع خشوعہ نھر، أو کمال خشوعہ درأ۔ و قصد قطع النظر عن الأغیار، والتوجہ إلی جانب الملک الغفار مجمع الأنھر … (قولہ فلا یغمض عینیہ) ظاھرہ التحریم قال في البحر: وینبغي أن تکون الکراھۃ تنزیھیۃ إذا کان لغیر ضرورۃ ولا مصلحۃ‘‘(۲)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، کتاب الصلاۃ، بیان ما یستحب و ما یکرہ في الصلاۃ: ج ۱، ص:۵۰۷۔
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج۲، ص: ۴۱۳، ۴۱۴۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص154