75 views
کیا عکس کعبہ یا تصویر کعبہ پر نماز پڑھنا مکروہ ہے؟
(۱۰۱)سوال: مجھے معلوم ہوا ہے کہ جس طریقہ پر عین کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اسی طریقہ پر کعبہ کے عکس اور اس کی تصویر پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور حوالہ دیا ہے شامی کا اس لیے احقر معلوم کرنا چاہتا ہے کہ:
(۱) کیا واقعی شامی نے اپنی کتاب میں یہ مسئلہ نقل کیا ہے کہ کعبہ کے عکس اور اس کی تصویر پر بھی نماز پڑھنا مکروہ ہے؟
(۲) کیا در حقیقت یہ ہی مسئلہ ہے کہ عکس کعبہ اور تصویر کعبہ پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اگر ایسا ہے تو بہت سے مصلوں پر کعبہ کی تصویر بنی رہتی ہے جس کی وجہ سے امام صاحب کی نماز مکروہ ہوتی ہے اور امام کی وجہ سے مقتدیوں کی نماز بھی مکروہ ہوتی ہے اگر ایسا ہی ہے تو اگر کسی شخص نے کعبہ کی صورت اور بعینہٖ کعبہ کی طرح ایک مسجد تعمیر کی اور یہ کہے کہ یہ کعبہ ہے تو اس کا کہنا صحیح ہونا چاہئے اور جو ثواب کعبہ میں نماز کا ملتا ہے وہ ہی ثواب ملنا چاہئے اس کا جواب مدلل عنایت فرماکر مشکور فرمائیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: عبدالقیوم، پرتاپ گڑھ، یوپی
asked Jan 23 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱)ہماری معلومات کے مطابق شامی میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس میں کعبۃ اللہ کی ترک تعظیم لازم آتی ہے، کعبہ کے عکس یا اس کی تصویر پر نماز کی کراہت وعدم کراہت کا مسئلہ شامی میں ہماری معلومات کے مطابق نہیں ہے۔
(۲) کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا ترک تعظیم کی وجہ سے مکروہ ہے اور کعبہ کے عکس پر یا کعبہ کے نقش والے مصلیٰ پر نماز پڑھنے میں کراہت معلوم نہیں ہوتی؛ اس لیے کہ یہ عکس اور تصویر غیر ذی روح کی ہے اور غیر ذی روح کی تصویر کے سامنے نمازپڑھنے میں مضائقہ نہیں اگر مصلی کو غافل نہ کرے، تو غیر ذی روح کی تصویر کی گنجائش ہے۔ غیر ذی روح کی تصویر کے متعلق ہی شامی میں ہے ’’أو لغیر ذي روح لا یکرہ، لأنہا لا تعبد‘‘(۱) غیر ذی روح کی تصویر میں مدار انتشار قلب وذہن اور فوت خشوع ہے اگر نقش ونگار اور تصویر سے مصلی کا خشوع فوت ہوجائے، تو کراہت ہے اور اگر خشوع فوت نہ ہو، تو کوئی کراہت نہیں؛ قرآن کریم کی آیت {الذین ہم في صلاتہم خاشعون}(۱)  میں خشوع کا حکم ہے؛ پس جو چیز خشوع میں کمی پیدا کرے یا خشوع کو ختم کردے وہ چیز باعث کراہت ہوگی، آج کل چوں کہ مصلیٰ پر بنے ہوئے نقش یا عکس کعبہ سے خشوع فوت نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کوئی نئی چیز ہے جس کی طرف ذہن کا التفاف ہو یعنی نقش ونگار کا رواج نہ ہو پھر کسی جگہ نقش ونگار بنے ہوئے ہیں، تو انسان کا ذہن اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے؛ لیکن جب اس طرح کے نقش عام ہوجائیں، تو التفاتِ ذہن یا فوات خشوع کا مطلب ہی نہیں؛ پس عکس کعبہ سے جب فوات خشوع نہ ہو، تو شرعاً ایسے مصلیٰ پر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
عکس کعبہ بنی ہوئی جا نماز کے بارے میں یہ بھی بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کی ایجاد یہودیوں نے کی ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی تعظیم ذہن مسلم سے نکل جائے۔ سو اول تو عکس کعبہ مصلّے پر سجدے کی جگہ بنا ہوا ہوتا ہے پیروں کی جگہ نہیں ہوتا جس میں ترک تعظیم لازم نہیں آتی دوسرے یہ کہ نمازی جس وقت اس پر نماز پڑھتا ہے اس کے ذہن میں یہ تفصیل یا سوء ادبی کی (عیاذاً باللہ) نیت نہیں ہوتی اور مشابہت یا یہودیوں وعیسائیوں کی کسی چیز کا اختیار کرنا مطلقاً ناجائز نہیں؛ بلکہ جو دین کے لیے باعث ضرر ہو اس کا اختیار یا اس میں مشابہت ممنوع ہے ’’وإن کانت العلۃ التشبہ بعبادتہا فلا تکرہ‘‘(۲) یہودیوں وعیسائیوں کی چیزوں وافعال کو اس قصد سے اختیار کرے کہ یہ ان کی چیز یا ان کی مشابہت ہے، تو مکروہ ہے اگر ایسا نہ ہو، تو کوئی کراہت نہیں ’’صورۃ المشابہۃ بلا قصد لایکرہ‘‘(۳) اس قسم کی جا نماز میں نہ تشبہ ہے جو ممنوع ہو اور نہ یہ قصد نمازی کا ہوتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ایجاد ہے پس اس قسم کی جا نماز پر نماز مکروہ نہیں؛ ہاں! اگر جا نماز پر ایسا نقش ہو کہ اس سے خشوع فوت ہوجائے، تو وہ عکس کعبہ ہو یا دوسرا نقش ہو ہر صورت میں کراہت ہے۔

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا‘‘: ج۱، ص: ۴۱۸،زکریا۔)
(۲) سورۃ المؤمنون: ۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ الخ ‘‘: ج۲، ص:۴۱۹، زکریا۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۶۴۹، سعید کراچی۔
فأما إذا صلوا في جوف الکعبۃ فالصلاۃ في جوف الکعبۃ جائزۃ عند عامۃ العلماء، نافلۃ کانت أو مکتوبۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکان: الصلاۃ في جوف الکعبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، زکریا دیوبند)
ولو صلی في جوف الکعبۃ أو علی سطحہا جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)
ولا باس بہ للتذلل … وتعقبہ في الامداد بما في التجنیس من أنہ یستحب لہ ذلک، لأن مبنی الصلاۃ علی الخشوع۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ الخ ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،زکریا دیوبند)
إعلم أن التشبیہ بأہل الکتاب لایکرہ في کل شيء فانا نأکل ونشرب کما یفعلون إنما الحرام ہو التشبہ فیما کان مذموماً وفیما کان یقصد بہ التشبیہ، کذا ذکرہ قاضي خان في شرح الصغیر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج ۲، ص: ۱۱، مطبوعہ مصر)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص162

 

answered Jan 23 by Darul Ifta
...