28 views
سورج گرہن ہونے کی صورت میں مسلمان کیا کریں؟
(۹۷)سوال: اگر سورج گہن ہو جائے تو مسلمانوں کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: صالح حسین، کشمیری
asked Jan 31 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس روز سورج گہن ہوجائے تو دو رکعت نماز شریعت نے مقرر کی ہے اس کو نماز کسوف کہتے ہیں نماز کسوف جماعت سے ادا ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورج گہن کے وقت یہ ہی عمل فرماتے تھے۔ سورج گہن اللہ کی ایک نشانی ہے تاکہ انسان اس پر غور کرے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس سورج کو بے نور کر سکتا ہے ۔ اسی طرح جب چاہے تو اس پورے نظام شمس کو؛ بلکہ کل کائنات کے تمام نظام کو فناء کردے اور قیامت آجائے بس اس طرح مومن کے دل میں خوف طاری ہوتا ہے اور وہ فوراً توبہ کرتا ہے۔ اور اپنی زندگی کی اصلاح کی فکر کرتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہؓ  کو ہر ایسے موقع پر خوف طاری ہوتا تھا اور فوراً مسجد کی طرف چل دیتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں سورج گرہن ہوا آپؐ اس خوف سے گھبرا کے باہر تشریف لائے کہ کہیں قیامت نہ آجائے۔ اور فوراً مسجد تشریف لے گئے اور حضرات صحابہؓ کو بلاکر دو رکعت نماز لمبے رکوع لمبی قرأت اور لمبے سجدے کے ساتھ ادا فرمائی۔ اس لیے تمام مسلمانوں کو شرعاً حکم ہے کہ وہ مسجد میں جمع ہوکر دو رکعت نماز باجماعت پڑھیں اس میں طویل سے طویل رکوع وسجدے کریں۔
پھر طویل دعا کریں اور سورج گہن ہونے تک دعاء میں مشغول رہیں؛ البتہ اس نماز میں سری قرأت لازم ہے اس میں نہ اذان اور نہ اقامت کہنا صحیح ہے اگر اعلان کرکے جمع کرلیا جائے تو اس کی گنجائش ہے اگر اس دوران نماز کا وقت آجائے تو نماز فرض ادا کرنا بھی ضروری ہے اور عورتوں کو حکم کیا جائے اپنے اپنے گھروں میں تلاوت، دعا، ذکر میں مشغول رہیں۔
’’یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ للکسوف……عند الکسوف رکعتین بیان لأقلہا، وإن شاء أربعاً أو أکثر … کالنفل بلا أذان ولا إقامۃ ولا جہر ولا خطبۃ… ویطیل فیہا الرکوع والسجود والقراء ۃ والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ … حتی تنجلی الشمس کلہا‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ۶۷، ۶۸، زکریا دیوبند۔)
حدثنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا أبو أسامۃ، عن برید بن عبد اللہ، عن أبي بردۃ، عن أبي موسی، قال: خسفت الشمس، فقام النبي صلی اللہ علیہ وسلم فزعا، یخشی أن تکون الساعۃ، فأتی المسجد، فصلی بأطول قیام ورکوع وسجود مارأیتہ قط یفعلہ، وقال: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ، لا تکون لموت أحد ولا لحیاتہ، ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رأیتم شیئا من ذلک، فافزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف، باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص:۱۴۵)
یصلي بالناس من یملک إقامۃ الجمعۃ)، بیان للمستحب، وما في السراج لا بد من شرائط الجمعۃ إلا الخطبۃ، ردہ فی البحر عند الکسوف (رکعتین)، بیان لأقلہا وإن شاء أربعا أو أکثر، کل رکعتین بتسلیمۃ أو کل أربع، محتبی، وصفتہا: (کالنفل) أي برکوع واحد فی غیر وقت مکروہ، (بلا أذان و) لا (إقامۃ و) لا (جھر و) لا (خطبۃ)، وینادي: الصلاۃ جامعۃ لیجتمعوا، (ویطیل فیہا الرکوع) والسجود (والقراء ۃ) والأدعیۃ والأذکار الذي ہو من خصائص النافلۃ ثم یدعو بعدہا جالسا مستقبل القبلۃ أو قائما مستقبل الناس والقوم یؤمنون، (حتی تنجلي الشمس کلہا وإن لم یحضر الإمام) للجمعۃ (صلی الناس فرادی) في منازلہم تحرزا عن الفتنۃ، (کالخسوف) للقمر۔
(قولہ: ردہ في البحر) أي بتصریح الإسبیجابي بأنہ یستحب فیہا ثلاثۃ أشیاء: الإمام، والوقت: أي الذي یباح فیہ التطوع، والموضع: أي مصلی العید أو المسجد الجامع۔ اہـ۔ وقولہ: الإمام أي الاقتداء بہ۔ وحاصلہ: أنہا تصح بالجماعۃ وبدونہا، والمستحب الأول، لکن إذا صلیت بجماعۃ لا یقیمہا إلا السلطان۔ و ما دونہ کما مر أنہ ظاہر الروایۃ، وکون الجماعۃ مستحبۃ، فیہ رد علی ما في السراج من جعلہا شرطا کصلاۃ الجمعۃ۔ (قولہ: عند الکسوف)، فلو انجلت لم تصل بعدہ، وإذا انجلی بعضہا جاز ابتداء الصلاۃ، وإن سترہا سحاب أو حائل صلی؛ لأن الأصل بقاؤہ، وإن غربت کاسفۃ،…أمسک عن الدعاء وصلی المغرب، جوہرۃ (قولہ: وإن شاء أربعا أو أکثر إلخ) ہذا غیر ظاہر الروایۃ، وظاہر الروایۃ ہو الرکعتان ثم الدعاء إلی أن تنجلی۔ شرح المنیۃ۔ قلت: نعم فی المعراج وغیرہ: لولم یقمہا الإمام صلی الناس فرادی رکعتین أو أربعاً، وذلک أفضل۔ (قولہ: أي برکوع واحد) وقال الأئمۃ الثلاثۃ: في کل رکعۃ رکوعان، والأدلۃ في الفتح وغیرہ، (قولہ: في غیر وقت مکروہ)؛ لأن النوافل لا تصلی في الأوقات المنہی عن الصلاۃ فیہا، وہذہ نافلۃ، جوہرۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الکسوف‘‘: ج۳، ص:۶۷- ۶۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص428

 

answered Jan 31 by Darul Ifta
...