87 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عصر کی نماز بعد  کوئی بھی نماز جب قضاء پڑھنا درست ہے. تو کیا اس قضاء نماز کے ساتھ اسکی سنت بھی پڑھ سکتے ہیں جیسے کہ ظہر کی نماز عصر کے بعد قضا کرتا ہے تو ظہر کی قبلیہ بعدیہ سنت بھی پڑھ سکتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں
2.جیسے کہ بعض لوگ نفل نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں جاکر رورو کر دعا مانگتے ہیں تو کیا اس طرح فرض اور سنت میں بھی درست ہے یا نہیں؟؟
asked Jun 23, 2021 in نماز / جمعہ و عیدین by Ahsan Qasmi

1 Answer

Ref. No. 1469/42-908

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عصر کی فرض نماز کے بعد کسی فرض یا واجب کی قضا  پڑھنا درست ہے لیکن سنت کی قضاء یا نفل پڑھنا درست نہیں ہے۔ اس لئے ظہر کی فرض کی قضاء کے ساتھ اسکی سنتیں پڑھنا درست نہیں ہے۔

 2۔ انفرادی طور پر فرض نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں  اللہ کی عظمت اور اپنی کوتاہیوں  کا تصور کرکے  رونادرست  بلکہ احسن ہے،اور عربی میں ماثور دعائیں مانگنا بھی درست ہے لیکن بہتر نہیں ہے، کیونکہ دعا کا سنت طریقہ  قبلہ رو ہو کر بیٹھ کر ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ہے، اس لئے  سجدہ کی حالت میں دعا کرنامسنون طریقہ نہیں ہے۔   نفل نماز میں جو وسعت ہے وہ فرض نمازوں میں نہیں ہے۔ اس لئے نفل میں سجدہ میں دعاکرنا بہترہے لیکن فرض میں نہ کرنا بہتر ہے۔ نیز اس بات کا بھی خیال رہے کہ یہ دعا ایسے امور سے متعلق نہ ہو جو مخلوق سے مانگی جاتی ہیں۔ 

وفيه جواب عما أورد من أن قوله - صلى الله عليه وسلم - «لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا صلاة بعد الفجر حتى تطلع الشمس» رواه الشيخان يعم النفل وغيره: وجوابه أن النهي هنا لا لنقصان في الوقت بل ليصير الوقت كالمشغول بالفرض فلم يجز النفل، ولا ما ألحق به مما ثبت وجوبه بعارض بعد ما كان نفلا دون الفرائض. وما في معناها، بخلاف النهي عن الأوقات الثلاثة فإنه لمعنى في الوقت وهو كونه منسوبا للشيطان فيؤثر في الفرائض والنوافل، وتمامه في شروع الهداية. (قوله: حتى لو نوى إلخ) تفريع على ما ذكره من التعليل: أي وإذا كان المقصود كون الوقت مشغولا بالفرض تقديرا وسنته تابعة له، فإذا تطوع انصرف تطوعه إلى سنته لئلا يكون آتيا بالمنهي عنه فتأمل. (قوله: بلا تعيين) لأن الصحيح المعتمد عدم اشتراطه في السنن الرواتب، وأنها تصح بنية النفل وبمطلق النية، فلو تهجد بركعتين يظن بقاء الليل فتبين أنهما بعد الفجر كانتا عن السنة على الصحيح فلا يصليها بعده للكراهة أشباه. (شامی، کتاب الصلوۃ 1/376)

قال فی العلائیہ وکذا لایأتی فی رکوعہ وسجودہ بغیر التسبیح علی المذہب وماورد محمول علی النفل قال ابن عابدین رحمہ اللہ تعالٰی (قولہ محمول علی النفل) ای تھجدًا (اوغیرہ، خزائن، وکتب فی ھامشہ فیہ رد علی الزیلعی حیث خصہ بالتھجد ۱ھ\x0640 ثم الحمل المذکور صرح بہ المشائخ فی الوارد فی الرکوع والسجود وصرح بہ فی الحلیۃ فی الوارد فی القومۃ والجلسۃ وقال علی انہ ان ثبت فی المکتوبۃ فلیکن فی حالۃ الانفراد اوالجماعۃ والمأمون محصوروں لایتثعلون بذلک کما نص علیہ الشافیعۃ ولاضرر فی التزامہ وان لم یصرح بہ مشایخنا فان القواعد الشرعیۃ لاتنبوعنہ کیف والصلٰوۃ والتسبیح والتکبیر والقرأۃ کما ثبت فی السنۃ اھ\0640۔ (شامی، فروع قرا بالفارسیۃ او التوراۃ او الانجیل 1/505)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jun 27, 2021 by Darul Ifta
...