Ref. No. 1636/43-1211
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ ہو ، اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ البتہ اس کو نصاب سے زائد مال یک مشت دینا مکروہ ہے گوکہ اس سے بھی زکوۃ دہندہ کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر نصاب کے بقدر کسی کے پاس مال ہو جائے، چاہے وہ چند گھنٹہ پہلے ہی مالک ِ نصاب ہوا ہو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ؛ ایسے شخص کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ لہذا صورت مذکورہ میں اگر طالب علم کے پاس نصاب کے بقدر مال جمع ہوگیا تو اس کو زکوۃ دینا اور لیناجائز نہیں ہے۔البتہ ایسا کرسکتے ہیں کہ زکوۃ کی ایک رقم کو ٹکٹ بنانے میں خرچ کردیا، پھر مستحق ہوگیا، زکوۃ کی دوسری رقم لی اس سے فیس ادا رکردیا، پھر زکوۃ کی رقم آئی اور اس سے کمرہ کا کرایہ ادا کردیا، یا کتاب وغیرہ خریدلی، تو اس طرح زکوۃ کی رقم اپنے اخراجات میں صرف کرسکتاہے۔ زکوۃ دینے والا اگر کوئی ایک بندہ ہے تو وہ زکوۃ کی ساری رقم یک مشت نہ دے بلکہ موقع بموقع مختلف ضروریات میں دیتارہے۔ ایک شکل یہ بھی ہے کہ کسی سے بطور قرض ، ایک موٹی رقم لے لے اور اپنی ضروریات میں صرف کرے، اور اس قرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ کی بڑی رقم یک مشت لے کر ادائیگی کردے۔
"فهذه جهات الزكاة، وللمالك أن يدفع إلى كل واحد، وله أن يقتصر على صنف واحد، كذا في الهداية. وله أن يقتصر على شخص واحد، كذا في فتح القدير. والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصاباً، كذا في الزاهدي. ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعداً، وإن دفعه جاز، كذا في الهداية. هذا إذا لم يكن الفقير مديوناً فإن كان مديوناً فدفع إليه مقدار ما لو قضى به دينه لايبقى له شيء أو يبقى دون المائتين لا بأس به، وكذا لو كان معيلاً جاز أن يعطى له مقدار ما لو وزع على عياله يصيب كل واحد منهم دون المائتين، كذا في فتاوى قاضي خان. وندب الإغناء عن السؤال في ذلك اليوم، كذا في التبيين". (الھندیۃ 1/188) "(وكره إعطاء فقير نصاباً) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديوناً أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لايخص كلا) أو لايفضل بعد دينه (نصاب) فلايكره، فتح".( شامی 2/353)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند