Ref. No. 1801/43-1541
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حق بات بولنا اور بدعت و گمراہی سے نفرت کرنا اور اس کی بیخ کنی کے لئے حسب قدرت اٹھ کھڑا ہونا یہ ایمانی تقاضہ ہے۔ ہر مؤمن کو ایسا ہونا چاہئے، حدیث میں اس کی جانب رہنمائی کی گئی ہے، البتہ موقع و محل اور کہنے کا انداز ایسا ہونا چاہئے جو مؤثر ہو، ایسانہ ہو کہ اصلاح کے بجائے فتنہ وفساد کاسبب بن جائے۔ اس لئے قرآن کریم نے لوگوں کو حکمت کے ساتھ دعوت و تبلیغ کرنے اور بحث ومباحثہ میں احسن طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیاہے۔
کسی مسلمان کے بارے میں حسن ظن ہی رکھنا چاہئے جب تک کہ اس کے خلاف کا مشاہدہ نہ ہوجائے، اس لئے کس نے کونسا گناہ کیاہے، اس کا علم مغیبات میں سے ہے، جس کو صرف اور صرف اللہ تعالی جانتے ہیں۔ آپ کو کسی کےبارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہئے، کسی کے بارے میں اگردل میں یہ خیال آتاہے کہ اس نے فلاں گناہ کیا ہے تو اس کو محض ایک وسوسہ سمجھیں، اس شخص کو برا نہ سمجھیں، ہوسکتاہے کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہو، یا اس نے اس گناہ سے توبہ کرلیا ہو یا وہ گناہ کسی نیک عمل سے بدل گیاہو وغیرہ۔ اس طرح کے وساوس کے دفعیہ کے لئے جلد از جلد کسی صاحب نسبت بزرگ سے مسلسل رابطہ میں رہنا مفید معلوم ہوتاہے۔
عن أبی سعيد: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من رأى منكم منكرا، فاستطاع أن يغيره بيده، فليغيره بيده، فإن لم يستطع، فبلسانه، فإن لم يستطع، فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان» (سنن ابن ماجہ، باب الامر بالمعروف 2/1330 الرقم 4013)
اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ (سورۃ النحل 125)
ان الحسنات یذھبن السیئات، ذلک ذکری للذاکرین (سورہ ھود 114)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند