الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر اذان اور تکبیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں اگر یہ کام کرنا اچھا ہوتا تو حضرات صحابہؓ ضرور اس کام کو انجام دیتے پس ایسا کرنا بدعت اور گمراہی ہے اوردین کے اندر زیادتی ہے ہر مسلمان کو ایسی بدعات سے پرہیز کرنا واجب ہے۔ (۳) البتہ قبر پر ہاتھ اٹھا کر دعاء کرنا ثابت ہے، لیکن قبر سامنے نہ ہو اور قبلہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ اٹھائے تاکہ صاحبِ قبر سے مانگنے کا شبہ نہ ہو۔(۱)
(۳) لا یسن الأذان عند إدخال المیت في قبرہ کما ہو المعتاد ألأٰن وقد صرح ابن حجر في فتاویہ بأنہ بدعۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبرہ وقال استغفروا لأخیکم واسألو اللّٰہ لہ التثبیت فإنہ ألأٰن یسئل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص368