48 views
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ مکہ مکرمہ توسیع ہوکر حل تک پہنچ گیا ہے جس میں مسجد عائشہ تک توسیع ہوگئی ہے لہذا بعض لوگوں کا کہنا ہے اب یہ میقات نہیں رہا لہذا یہاں سے عمرہ کا احرام باندھنا درست نہیں ہوگا۔

لہذا آپ سے گزارش ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اور یہ بھی بتایں کہ کیا زمانے کی تبدیلی سے میقات کو کچھ آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے ؟
asked Aug 2, 2023 in حج و عمرہ by Mohammed khalid

1 Answer

Ref. No. 2458/45-3725

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مکہ شہر سے مدینہ جانے والے راستہ پر تنعیم کے مقام پر حرم مکہ کی حدود ختم ہوجاتی  ہے، یہاں ایک مسجد ہے جو حضرت عائشہ ؓ سے موسوم ہے۔ اہل مکہ یا جو لوگ مکہ مکرمہ میں قیام پذیر ہوں اور وہ عمرہ کرنا چاہیں تو حدود حرم سے باہر نکل کر حل میں سے کہیں سے بھی احرام باندھ سکتے ہیں، البتہ مسجد عائشہ سے افضل ہے۔ تاہم مسجد عائشہ میقات نہیں ہے، بلکہ تنعیم میقات ہے، اور مکہ مکرمہ کی توسیع سے حدود حرم کا دائرہ وسیع نہیں ہوگا، ۔

"ولایکره الإکثار منها أي من العمرة في جمیع السنة، بل یستحب أي الإکثار منها، وأفضل مواقیتها لمن بمکة التنعیم والجعرانة، والأول أفضل عندنا". (مناسك ملا علي القاري ۴۶۷)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 479):
"(و) الميقات (لمن بمكة) يعني من بداخل الحرم (للحج الحرم وللعمرة الحل)؛ ليتحقق نوع سفر، والتنعيم أفضل".

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 479):
"(قوله: والتنعيم أفضل) هو موضع قريب من مكة عند مسجد عائشة، وهو أقرب موضع من الحل، ط أي الإحرام منه للعمرة أفضل من الإحرام لها من الجعرانة وغيرها من الحل عندنا، وإن كان صلى الله عليه وسلم أحرم منها؛ لأمره عليه الصلاة والسلام عبد الرحمن بأن يذهب بأخته عائشة إلى التنعيم؛ لتحرم منه، والدليل القولي مقدم عندنا على الفعلي".

"المغني“  لابن قدامة  (3/111 ):

قال ابن قدامة رحمه الله:"إن ميقات العمرة لمن كان بمكة سواء من أهلها أو ممن قدموا عليها هو الحل، وقال: لانعلم في هذا خلافاً". ("المغني" لابن قدامة 3/111).

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Aug 7, 2023 by Darul Ifta
...