الجواب وباللّٰہ التوفیق:تعلیم نسواں کی موجودہ دور میں شدید ضرورت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر لڑکیاں تعلیم و تہذیب یافتہ ہوںگی، تو نسلوں کے ایمان کی حفاظت ہوگی لیکن اس کے ساتھ شریعت کے اصولوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے بالغ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کو ہی معلمات مقرر کیا جائے لیکن اگر بڑی کتابوں کو پڑھانے کے لیے معلمات دستیاب نہ ہوں تو بدرجہ مجبوری پردہ کے نظم کے ساتھ مرد وں کو مقرر کیا جاسکتا ہے اور ایسے مردکے پیچھے نماز درست ہے۔(۱)
(۱) ثلاثۃ لہم أجران: رجل من أہل الکتاب آمن بنبیہ وآمن بمحمد والعبد المملوک إذا أدی حق اللّٰہ وحق موالیہ ورجل لہ أمۃ فأدبہا فأحسن تأدیبہا علمہا فأحسن تعلیمہا ثم اعتقہا فتزوج فلہ أجران۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۱۱)
قالت النساء للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: غلبن علیک الرجال فاجعل لنا یوماً من نفسک فوعدہن یوماً لیقہن فیہ فوعظہن وأمرہن۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العلم، باب ہل یجعل للنساء یوماً علی حدۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص180