29 views
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس حوالے سے کہ رمضان المبارک میں اکثر مساجد میں ثواب کی نیت سے نمازیوں کے لئے افطاری کھانا چاۓ اور سحری کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ بیان و ذکر کیا جاتا ہے۔ کھانے کے اہتمام کی وجہ سے لوگوں کی بہت بڑی  تعداد شامل ہوتی ہے۔ اور اگر کھانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا تو مسجد کے نمازی اہل محلّہ  جمع ہوتے ہیں ۔ تعداد کم ہونے کی وجہ سے ذکر و عبادت میں دل لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مساجد میں لوگوں کو کھانے کے لئے جمع کرنا کہ اہل محله کے لئے عبادت کرنا مشکل ہوجاۓ جائز عمل ہے اور کیا بزرگوں سے یہ اعمال کرنا ثابت ہے؟ اور کھانا کھلانے کی اس روایت کو مسلسل کرنا بدعت میں شامل ہوگا ؟
قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے اقوال کی روشنی میں جواب عنایت فرمادیں ۔
asked Sep 24, 2023 in بدعات و منکرات by nadeem

1 Answer

Ref. No. 2604/45-4121

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    مساجد  عبادت اور ذکراللہ کے لئے خاص ہیں ، مسجد میں ایسا کوئی عمل جس سے عبادت و ذکراللہ میں خلل ہو اور نمازیوں کو دشواری ہو، جائز نہیں ہے۔ خیال رہے کہ مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا، پینا اور سونا مکروہ ہے؛ اس لئے کھانے وغیرہ کا نظم مساجد  کی حدودسے باہر  ہونا چاہئے، یا پھر مسجد شرعی کے باہری حصہ میں نظم ہو تو نمازوں کے اوقات کا خیال رکھ کر اس کی ترتیب بنائی جائے۔

’’ وأكل، ونوم إلا لمعتكف وغريب.  (قوله: وأكل ونوم إلخ) وإذا أراد ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف، فيدخل ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى، أو يصلي ثم يفعل ما شاء، فتاوى هندية.‘‘ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 1/ 661)

’’ويكره النوم والأكل فيه لغير المعتكف، وإذا أراد أن يفعل ذلك ينبغي أن ينوي الاعتكاف فيدخل فيه ويذكر الله تعالى بقدر ما نوى أو يصلي ثم يفعل ما شاء، كذا في السراجية (الفتاوى الهندية 5/ 321)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Dec 7, 2023 by Darul Ifta
...