321 views
سوال:
ایک شخص آن لائن (Dropshipping) چیزیں فروخت کرتا ہے، بیچنے والا اپنے پاس بہت کم یا زیرو فیصد سامان رکھتا ہے، جب کسٹمر اشتہار دیکھ کر اپنا آرڈر بک کرواتا ہے، تو وہ شخص آرڈر لے کر مارکیٹ سے وہ چیز خرید کر اس کسٹمر کو دے کر اس کی قیمت وصول کر لیتا ہے، تو کیا اس طرح تجارت کرنا درست ہے؟ سوال میں مقصود یہ ہے کہ کیا اس طرح کی بیع میں قبضہ مفقود ہے؟ تفصیل سے جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
فقط: والسلام
المستفتی: محمد حذیفہ حسین، دیوبند
asked Oct 18, 2023 in تجارت و ملازمت by azhad1

1 Answer

آف لائن 3973

الجواب وباللہ التوفیق:
ڈراپ شپنگ تجارت کی ایک جدید شکل ہے جس میں کوئی شخص کسی مینوفیکچرنگ کمپنی کی ویب سائٹ یا کسی بڑے ای اسٹور مثلاً ایمازون، والمارٹ، فلپ کارڈ، مووی کیوک اور منترا وغیرہ پر بکنے والی کسی پراڈکٹ کی تشہیر کرتا ہے اور کسٹمر کو خریداری کی آفر کرتا ہے اور آرڈر ملنے پر مطلوبہ شے مینوفیکچرنگ کمپنی یا ای اسٹور ویب سائٹ یا پیج کو دیکھ کر کسٹمر اپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے اور کسٹمر سے رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے، مبیع کی ادائیگی بعض اوقات ڈیبٹ کارڈ، یا آن لائن کی جاتی ہے، ضروری نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔ اس طریقہ کار وبار میں بظاہر خریدار کا آن لائن اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا قبول معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں، جیسے دوکان دار اشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجا دیتا ہے اور ان پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہیں، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے جیسے دکان پر دکان دار کا عمل بیع کو قبول کرنا ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کا عمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ ایک عام دکان پر اگر خریدار اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے ’’بیع تعاطی‘‘ سے مکمل ہوجاتی ہے اوراگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔
بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت دینا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اٹھا لیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بیع تام ہوتی ہے، ایسے ہی مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ شئی پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تو وہ اسے قبول کرلیتا ہے یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتاہے۔نیز مذکورہ بیع میں قبضہ کی صورت یہ ہے کہ
شریعت اسلامیہ نے معاملات مالیہ میں قبضہ کی کسی خاص صورت یعنی حقیقی وحسی ایسے ہی معنوی وحکمی کسی کو مخصوص نہیں کیا بلکہ قبضہ کی ہر اُس صورت کو جائز قرار دیا ہے جسے عُرف میں قبضہ سمجھا جاتا ہے اور معاشرہ کے لوگ اُسے قبول کرتے ہیں۔ گویا مالی لین دین میں قدرت واختیار کی ہر وہ شکل جسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو اُس کو شرعاً قبضہ کا مصداق سمجھا جاتا ہے یا سمجھا جانا چاہئے۔ اِسی طرح قبضہ کی قدرت اور موقعہ دیدینا بھی قبضہ کے قائم مقام اور اس کی ہی ایک شکل ہے۔ علمائے احناف کے نزدیک بھی شئی کا حسی قبضہ ضروری نہیں ہے، بلکہ مبیع کا تخلیہ (تمام رکاوٹوں کو ہٹا کے دوسرے کو تصرف واستعمال کا حق دینا) بھی کافی ہے۔
مشتری تصویر دیکھ کر جب کلک کرتا ہے تو یہ خریداری آرڈر بک کرتا ہے اور جب بائع وہ سامان مشتری تک پہونچا دیتا ہے تو بیع مکمل ہو جاتی ہے بعض مرتبہ تشہیر کرنے والے کے پاس سامان نہیں ہوتا وہ آرڈر لیکر اس کے مطابق دوسری جگہ سے سامان لاکر دیتا ہے جب وہ سامان لا کر دیدے گا تو بیع ہو جائے گی اور اس سے پہلے کی کارروائی کو وعدہ بیع کہا جائے گا۔
لہٰذا انٹرنیٹ پر اس طرح کی خرید وفروخت کرتے ہوئے درج ذیل امور کا اگر خیال رکھا جائے تو مذکورہ معاملہ کی شرعاً گنجائش ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے۔
(أ) مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہو جائے۔
(ب) کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو۔
(ج) صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رویت ساقط نہ ہوگا، لہٰذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہو۔
(د) اگر ویب سائٹ پرخریدی گئی چیز اس طرح نہیں جیسا کہ اس کی صفات میں بیان کیا گیا تھا تو مشتری کو خیارِ رؤیت حاصل ہوگا، نیز اگر اس شئی میں کوئی ایسا عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ بائع کو خیارِ رؤیت تو مطلقاً حاصل نہیں ہوگا، البتہ ثمن میں کھوٹ ہوتو اسے تبدیلی کاحق ہوگا، مگر سودے کو منسوخ کرنے کاحق اسے پھر بھی نہ ہوگا۔
الحاصل: آن لائن خرید وفروخت بکثرت وجود پزیر ہے اور عوام الناس اس طرح کی بیع وشراء میں عام طور پر مبتلا ہیں اس لئے مذکورہ تمام تر تفصیلات اور شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر معاملات کئے جائیں تو ان تفصیلات وتشریحات کی روشنی میں بیع وشراء میں ایجاب وقبول اور مبیع پر قبضہ (خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو رہی ہو) بھی پایا جا رہا ہے اس لئے مذکورہ بیع کرنے کی گنجائش ہے۔
’’شراء ما لم یرہ جائز، کذا في الحاوي، وصورۃ المسألۃ أن یقول الرجل لغیرہ: بعت منک ہذا الثوب الذي في کمی ہذا، وصفتہ کذا، والدرۃ التي في کفی ہذہ، وصفتہا کذا أو لم یذکر الصفۃ، أو یقول: بعت منک ہذہ الجاریۃ المنتقب … وإن أجازہ قبل الرؤیۃ لم یجز وخیارہ باق علی حالہ، فإذا رآہ إن شاء أخذ وإن شاء ردہ، ہکذا في المضمرات‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۰۳)
’’خیار العیب یثبت من غیر شرط، کذا فی السراج الوہاج، وإذا اشتری شیئًا لم یعلم بالعیب وقت الشراء ولا علمہ قبلہ والعیب یسیر أو فاحش فلہ الخیار إن شاء رضي بجمیع الثمن وإن شاء ردہ، کذا في شرح الطحاوي، وہذا إذا لم یتمکن من إزالتہ بلا مشقۃ، فإن تمکن فلا کإحرام الجاریۃ‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ۲۰، ص: ۲۸۸)

فقط: واللہ اعلم بالصواب
ا

answered Oct 18, 2023 by Darul Ifta
...