97 views
خنساء بنت عمرو رضی اللہ عنہا کے بارے میں مشہور ہے کہ جنگِ قادسیہ میں اُن کے چار بیٹے شہید ہو گئے تھے۔یہ قصہ محمد بن الحسن بن زبالہ نے بیان کیا ہے، دیکھئے [الاصابه 288/4]ابن زبالہ کے بارے میں :◈ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے فرمایا :وكان كذابا ” اور وہ جھوٹا تھا۔ “ [تاريخ ابن معين رواية الدوري : 1060 ]◈ ابن معین نے مزید فرمایا :عدو الله “یہ اللہ کا دشمن ہے۔ [الجرح و التعديل 228/7و سنده صحيح] [ التاريخ الكبير للبخاري 67/1 ت 154 و سنده صحيح ]کیا یہ روایت صحیح نہیں ہے
asked Dec 7, 2023 in سیاست by azhad1

1 Answer

Ref. No. 2299/45-4186

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت خنساء کے چار بیٹوں کی شہادت کا واقعہ مشہورہے اور مختلف کتب تاریخ میں مذکور ہے ،ابن الاثیر نے اسدالغابۃ میں،ابن حجر نے الاصابۃ میں اور زرکلی نے الاعلام میں اس کو بیان کیا ہے ، تاہم اس پر نقدو تبصرہ کرنے والوں نے نقد بھی کیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ خنساء کو ان کے دوسرے شوہر مرداس بن عمر سلمی سے چار بیٹے نہیں تھے بلکہ تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی پھر چار بیٹوں کاشہید ہونا کس طرح صحیح ہوسکتاہے اس میں ان کے ایک بیٹےعباس بن مرداس سلمی مشہور صحابی ہیںانہوں نے غزوۃ حنین میں مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا اس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا تھا کہ ان کو دو یہاں تک  کہ وہ راضی ہوجائیں،اس لیے اگر قادسیۃ میں ان کی شرکت ہوتی تومجاہدین قادسیہ میں مورخین ان کے مشہور ہونے کی وجہ سے ضرور ان کا تذکرہ کرتے اس لیے بعض حضرات نے اس  واقعہ پر شک کا اظہار کیاہے۔جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں پہلے شوہر کے ایک بیٹا اور دوسرے شوہر کے تین بیٹے شریک تھے ۔تاہم یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ اس پرکسی عقیدہ کی صحت کا مدار موقوف ہو اس لیے اس باب میں مورخین کی روایات کو قبول کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔

وذكر الزبير بن بكار، عن محمد بن الحسين المخزومي، عن عبد الرحمن بن عبد الله، عن أبيه، عن أبي وجزة، عن أبيه، أن الخنساء شهدت القادسية ومعها أربعة بنين لها، فقالت لهم أول الليل: يا بني، إنكم أسلمتم وهاجرتم مختارين والله الذي لا إله غيره إنكم لبنو رجل واحد، كما أنكم بنو امرأة واحدة، ما خنت أباكم ولا فضحت خالكم، ولا هجنت حسبكم، ولا غيرت نسبكم.

وقد تعلمون ما أعد الله للمسلمين من الثواب الجزيل في حرب الكافرين.واعلموا أن الدار الباقية خير من الدار الفانية، يقول الله عَزَّ وَجَلَّ: {يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} . فإذا أصبحتم غدا إن شاء الله سالمين فاغدوا إلى قتال عدوكم مستبصرين، وبالله على أعدائه مستنصرين.وإذا رأيتم الحرب قد شمرت عن ساقها، واضطرمت لظى على سياقها، وجللت نارا على أرواقها، فتيمموا وطيسها، وجالدوا رئيسها عند احتدام خميسها، تظفروا بالغنم والكرامة، في دار الخلد والمقامة.فخرج بنوها قابلين لنصحها، وتقدموا فقاتلوا وهم يرتجزون، وأبلوا بلاء حسنا، واستشهدوا رحمهم الله.فلما بلغها الخبر، قالت: الحمد لله الذي شرفني بقتلهم، وأرجو من ربي أن يجمعني بهم في مستقر رحمته.(اسد الغابۃ،7/89)وقد ذكروا خنساء في الصحابة، وأنها شهدت القادسية، ومعها أربع بنين لها، فاستشهدوا وورثتهم.(الاصابۃ،فی تمییز الصحابۃ،6/126)وكان لها أربعة بنين شهدوا حرب القادسية (6/126) ـ فجعلت تحرضهم على الثبات حتى قتلوا جميعا فقالت: الحمد للَّه الّذي شرفني بقتلهم! (الاعلام للزرکلی،2/86)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Dec 7, 2023 by Darul Ifta
...