Select Language
EN  |  UR  |  AR

    فوری لنکس  

متکلم اسلام حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

صدر المدرسین وناظم مجلس تعلیمی دارالعلوم وقف دیوبند

المتوفی ۱۴۳۹ھ


 

دیوبند علم وفضل کا مرکزاور اصحاب کمال کی بستی ہے، یہا ں کے خمیر سے اٹھنے والے افراد واشخاص کے کمالات ، امتیازات،خدمات اور اوصاف کا احاطہ ناممکن ہے، دیوبند کے دامن میں ٹکے ستارے اس کی کشادہ پیشانی پر نور کی لکیریں اور اس کی آنکھوں میں جلتے علم وکمال کے دیئے گذشتے ڈیڑھ سو سال سے ہر حصہ میں روشن رہے، سال بہ سال، منزل بہ منزل، ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے، جنھوں نے پچھلوں کی روایتوں کو ہی زندہ نہیں رکھا بلکہ دورِ جدید کے تقاضوں کی تکمیل بھی کی وہ کردار وعمل اور اخلاق وعادات ہی میں منفرد نہیں تھے، بلکہ ان کے قدم جس میدان کی جانب بھی اٹھے رنگ ونور کی بارش ہوئی ان کے وجود سے فضائیں عطر بیز اور ماحول خوش گوار رہا وہ جہاں پہنچے اور جس آبادی میں ان کے قدم پڑے وہاں ان کا استقبال ہوا، قدردانوں نے ان کو اپنے دل میں جگہ دی اور قدر ومنزلت کی ہر بلندی کو انھوں نے حاصل کیا۔ دیوبند کو دیوبند بنانے اور دنیا میں اس کا مقام پیدا کرنے میں جس خانوادے کی خدمات نمایا ں ہیں وہ ہے خانوادہ قاسمی اسی خانوادے کے روشن چشم وچراغ متکلم اسلام حضر ت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی مدظلہ العالی ہیں آپ نے ۳؍ جون ۱۹۳۸ء کو حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کے گھر میں آنکھیں کھولیں، دارالعلوم دیوبند میں جناب قاری کامل صاحبؒ کے پاس قرآن کریم ناظرہ کیا بعدہٗ فارسی خانہ میں داخل ہوئے اور چار سال دارالعلوم میں فارسی پڑھی ، آپ کے فارسی کے اساتذہ میں مولانا بشیر صاحبؒ ، مولانا ظہیر صاحبؒ ،قاری مشفع صاحبؒ وغیرہ قابل ذکر ہیں، فارسی کی تکمیل کے بعد درجات عربیہ میں داخل ہوئے، اور ۱۹۵۷ء میں فراغت حاصل کی، آپ کے درجات عربیہ کے اساتذہ میں حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحبؒ حضرت مولانا عبدالاحد صاحبؒ ، حضرت مولانا نعیم صاحبؒ اور برادر اکبر حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم وغیرہ قابل ذکر رہے۔ آپ کو سند حدیث شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ سے حاصل ہے، لیکن جس سال آپ دورۂ حدیث شریف میں تھے اسی سال حضرت شیخ الاسلام ؒ انتقال فرماگئے، ان کے بعد حضرت مولانا فخرالدین صاحب مسند حدیث پر جلوہ افروز ہوئے، آپ کو ان سے بھی اجازت حدیث حاصل ہے، دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ عصری علوم میں مصروف ہوگئے۔ علی گڑھ سے میٹرک کا امتحان دیا اور عصری علوم میں مہارت حاصل کی۔ ۱۹۶۹ء میں دارالعلوم میں آپ کا تقرر ہوا ، مختلف شعبہ جات میں آپ نے خدمات انجام دیں ، دارالعلوم وقف دیوبند کے قیام کے بعد آپ نے یہاں باضابطہ تدریس کا آغاز کیا، مشکوٰۃ شریف، ابوداؤد شریف، ترمذی شریف، جیسی اہم کتابیں آپ سے متعلق رہیں، اور کئی سالوں تک  بخاری شریف جلد اوّل آپ سے متعلق رہی ، آپ کا درس بے حد مقبول تھا شگفتہ گفتگو، سلجھی ہوئی تقریر، آسان انداز بیان، الجھی ہوئی عبارتوں اور مشکل ترین مسائل کو خوبصورتی کے ساتھ ادا فرماتے  تھے طلبہ میں مقبول بھی محبوب بھی، ایک محبوب استاذ کی حیثیت سے ان کی پہچان قائم  تھی ، اختلافی مسائل میں علماء کے اختلاف اوران کے صحیح مذاہب کی تفصیل مستند کتابوں کے حوالوں سے بیان فرماتے تھے،پھر ائمہ کے دلائل اور آخر میں امام ابوحنیفہؒ کے دلائل کا ذکر ہوتا؛ مگر اس شان سے کہ ائمہ پر کوئی حرف نہ آئے، بخاری میں ترجمۃ الباب کی تشریح اور حدیث سے اس کی مطابقت پرپوری توجہ صرف ہوتی ، حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیریؒ کی وفات کے بعد ۲۰۰۸ء میں آپ کو صدر المدرسین اور ناظم مجلس تعلیمی کے منصب پر فائز کیاگیا،جس کو آپ بحسن وخوبی انجام دیتے  رہے، دارالعلوم وقف دیوبند میں اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کے باوجود سادگی اور تواضع کا مجسمہ رہے ، تدریس کے ساتھ ساتھ تحریر وقلم سے بھی ان کا مضبوط رشتہ تھا، ایک قلم کار فکر پاروں کے ذریعہ اپنی موجودگی اورکام کااحساس دلاتاہے،اپنی صلاحیتوں کے چراغ ہتھیلیوں پر سجاتا ، اپنوں اورغیروں کو روشنی دکھاکے آگے بڑھ جاتا ہے، یہی عمل ہے جس نے حضرت کو آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے، حضرت مولانا لکھتے اور پوری طرح ڈوب کر لکھتے، موضوع کوئی بھی ہو عنوان کسی بھی نوعیت کا ہو اس میں ان کی انفرادیت صاف نظر آتی، ان کے اکثر مقالات ومضامین تحقیق ودلائل سے پرہوتے، ایک وقت میں سیرت رسول آپ کا خاص عنوان تھا آپ نے اس پر لکھا اور بہت کچھ لکھا، مجموعہ سیرت رسول، ولادت نشوونما، اصحاب کہف آپ کے قلم سے نکلی ہوئی تحقیقی کتابیں ہیں ، سیرت حلبیہ جو عربی میں ۳؍ جلدوں پر مشتمل تھی آپ نے اس میں ترجمہ کے علاوہ کچھ اہم اضافات کئے آج یہ کتاب چھ جلدوں میں حضرت کی تحقیقات کے ساتھ دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے بے شمار مقالات ومضامین جو مختلف رسائل وکتب میں بکھرے ہوئے ہیں، بہت اہم اورلائق استفادہ ہیں۔

وفات

تقریبا چار ماہ کی طویل علالت کے بعد  مورخہ ۲۳/ صفر المظر ۱۴۳۹ھ بروز پیر   مطابق ۱۳/ نومبر ۲۰۱۷ء  دوپہر گیارہ بج کر چالیس منٹ پر اللہ کو پیارے ہوگئے۔  آپ کی نماز جنازہ بعد نماز عشاء دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں حضرت مولانا سفیان قاسمی مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے پڑھائی۔ ہزاروں  کی تعداد میں لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اللہ تعالی آپ کی قبر مبارک  کو منور فرمائے اور اعلی علیین میں مقام کریم عطا فرمائے۔