Select Language
EN  |  UR  |  AR

    فوری لنکس  

مولانا حبیب الرّحمٰن عثمانی قدّس سرہ

۱۹۲۸  -  ۱۹۲۹


حیات اور تعلیم

آپ حضرت مولانا فضل الرحمن ؒ کے خلفِ رشید تھے، شروع سے آخر تک دارالعلوم میں علوم کی تکمیل کی، آپ ایک متبحر عالم اور عربی زبان کے زبردست ادیب تھے، ان کا تدبر اور انتظام دارالعلوم کی تاریخ میں ضرب المثل سمجھاجاتا ہے، دارالعلوم کی ترقی میں ان کی خدمات اور خداداد صلاحیتوں کو بڑا دخل حاصل ہے۔
۱۳۲۵ھ مطابق ۱۹۰۷ء میں حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحب کی مصروفیتوں کے باعث نیز دارالعلوم کو ترقی دینے کے سلسلے میں ایک ایسے لائق اور منتظم شخص کی ضرورت پیش آئی جو انتظامی امور اور ترقی کی تجاویز میں حافظ صاحب کا ہاتھ بٹاسکے،اس کے لئے آپ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص موجود نہ تھا، چنانچہ انکار کے باوجود آپ کو مجبور کرکے نیابتِ اہتمام کا منصب سپردکیاگیا، کہاجاتا ہے کہ دارالعلوم کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اس کو مولانا حبیب الرحمن عثمانی ؒجیسا  کام کرنے والا بیدارمغز منتظم اور مخلص ہاتھ آگیا، اہتمام کے کاموں میں ان کو اس قدر شغف تھا کہ شب و روز کا بیشتر حصہ اسی میں صرف ہوتاتھا، انہوں نے دارالعلوم کے شعبۂ انتظام و انصرام کو اتنا منظم اور مستحکم کردیا تھا کہ جب حکومت آصفیہ کی جانب سے نواب صدر یار جنگ بہادر دارالعلوم کے حسابات کی تنقیح کے لئے دیوبند آئے تو اُن کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ایک ایک اور دو دو آنے تک کے حسابات کے کاغذات اور رسیدیں باظابطہ طور پر فائل میں موجود تھیں۔ نواب صدریار جنگ بہادر کا بیان ہے کہ کوئی کاغذ ایسا نہ تھا جو مانگا گیا ہو اور فوراً پیش نہ  کردیا گیاہو، حافظ صاحب کے عہد اہتمام کی ترقی درحقیقت آپ ہی کی رفاقت کا نتیجہ سمجھی جاتی ہے، آپ ہمیشہ ان کے دست راست معتمد علیہ اور نائب رہے۔
۱۳۴۴ھ مطابق ۱۹۲۵ء میں جب حافظ صاحبؒ اپنی پیرانہ سالی کے باعث حیدراباد کے مفتئ اعظم کے منصب سے سبکدوش ہوئے تو ان کی جگہ پر آپ کا تقرر عمل میں آیا، لیکن دارالعلوم میں داخلی اختلافات رونما ہوجانے کے سبب سے آپ کو بہت جلد اس منصب سے دست کش ہوجانا پڑا، حضرت شاہ صاحبؒ، حضرت مفتی عزیزالرحمن اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی اور دوسرے چند اساتذہ اور طلباء کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ دارالعلوم سے علیحدہ ہوگئے تھے، یہ بڑا نازک موقع تھا مگر آپ کے عزم و استقلال، ہمت و جرأت اور دانش و تدبر نے دارالعلوم کی کشتی کو ڈگمگانے سے بچالیا۔
مولانا حبیب الرحمن صاحب، جن کی شخصیت ہر حیثیت سے یگانۂ روزگار تسلیم کی جاتی تھی، عام خیال ہے کہ اگر آپ کو ملکی سیاست میں بھی اتنا ہی شغف ہوتا جیسا کہ دارالعلوم کے ساتھ تھا تو آپ ہندوستان کے سب سے بڑےسیاسی لیڈر ثابت ہوتے، حضرت شیخ الہندؒ کی وصیت تھی کہ ارکان جمعیۃ العلماء کو دو آدمیوں کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے، ان میں پہلا نام آپ ہی کا تھا، چنانچہ آپ جمعیۃ العلماء کے بہترین مشیر ثابت ہوئے، ۱۳۴۰ھ مطابق ۱۹۲۱ء میں جمعیۃ العلماء کا اجلاس کیا گیا، (صوبہ بہار میں ہواتھا)،  اس میں آپ کو صدر منتخب کیا گیا، آپ کا خطبۂ صدارت نہ صرف عام طور پر پسند کیا گیا بلکہ اس کی سیاسی اہمیت کو ملک کے سیاسی حلقوں میں بھی پسندیدگی سے دیکھاگیا۔

تصانیف

مطالعہ کی کثرت نے آپ کو نہایت وسیع المعلومات بنادیا تھا، حضرت شاہ صاحبؒ فرمایاکرتے تھے: 'اگرمجھ پر کسی کے علم کا اثر پڑتاہے تو وہ مولانا حبیب الرحمن ہیں'۔
عربی ادب اور تاریخ سے خاص ذوق تھا، اور ان علوم میں ان کی وسیع النظری مشہور زمانہ تھی،مندرجہ ذیل تصانیف علمی یادگار ہیں:
(۱) 'قصیدہ لامیۃ المعجزات' (یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت میں تقریباً تین سو اشعار پر مشتمل ہے، جن میں آنحضرت ﷺ کے ایک سو معجزے نہایت فصیح و بلیغ انداز میں پیش کئے گئے ہیں۔ مولانا محمد اعزاز علی صاحب امروہیؒ (وفات ۱۳۷۴ھ) نے عربی اشعار کی سلیس اردو میں شرح فرمادی ہے۔
(۲) 'اشاعت اسلام' دنیا میں اسلام کیوں کر پھیلا؟ اس سوال کے جواب میں تقریباً پانچ سو صفحات پر مشتمل ان تاریخی واقعات کو پیش کیا گیا ہے جو اپنی نفسیاتی کشش کے اعتبار سے اشاعت اسلام کا باعث ہوئے۔
(۳) 'تعلیماتِ اسلام' اس کتاب میں اسلام کے طرز حکومت کو بیان کیا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ مشور ہ امیرِ جماعت کے لئے کس قدر ضروری ہے، اس ضمن میں آپ نے بتلایا ہے کہ امیر کی ذات پر اگر کلّی اعتماد ہو تو اکثریت و اقلیت کی رائے شماری کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر امیر کو یہ اعتماد حاصل نہ ہو تو پھر کام چلانے کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں کہ اکثریت کا اعتبار کیا جائے۔
(۴) 'رحمۃ للعالمین' یہ آنحضرتﷺ کی سیرت پر ایک نہایت گراں قدر تصنیف ہے، افسوس ہے کہ یہ ناتمام ہے، مگر جس قدر حصہ لکھا جاچکا ہے وہ سیرت نبوی کی تصانیف کی فہرست میں ایک عظیم الشان تصنیف کا اضافہ کرتاہے، یہ کتاب ابھی تک طبع ہوکر منظر عام پر نہیں آسکی۔

وفات

مولانا حبیب الرحمٰن صاحب نہایت نحیف الجثہ تھے، خوراک حیرت انگیز طور پر کم تھی، مگر ضعف اور کمزوری کے باوجود بے پناہ ہمت کے مالک تھے، حضرت حافظ صاحب کے انتقال کے ٹھیک ۱۴/ماہ کے بعد،۴/رجب ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۹ء کی شب میں اس جہانِ فانی سےرحلت فرمائی اور ہمیشہ کے لئے دارالعلوم کو اپنا مدّاح چھوڑگئے، نوراللہ مرقدہ۔