Select Language
EN  |  UR  |  AR

    فوری لنکس  

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نور اللہ مرقدہ

المتوفی۱۴۰۳ھ


 تعارف
خاندان، ابتدائی حالات اور تعلیم
کریئر
معمار ثانی دار العلوم دیوبند
بانئ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ
بر صغیر ہند کا ایک خطیبِ بے بدل
آپ کی خدمات عمائد اسلام کی نظر میں
تعلیم و تدریس، منصوبے اور دعوت و تبلیغ
آپ کی تصنیفی و تالیفی خدمات
آخری ایام


تعارف

دارالعلوم دیوبند آج جو کچھ بھی ہے سب حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہ کی مساعی کا ثمرہ ہے۔ آپ کی محنتوں سے دارالعلوم دیوبند کی عظمت و شہرت کو کافی فوائد حاصل ہوئے۔ آپ کے دورِ اہتمام میں دارالعلوم دیوبند پورے عالم اسلام میں ازہر الہند سے مشہور ہوگیا۔ایشیا، یورپ، امریکہ،مشرق وسطی اور افریقہ میں آپ نے دارالعلوم اور اس کی خدمات کو روشناس کرایا ۔ اسلام اور مسلمانوں کیلئے آپ نے جو خدمات انجام دیں،اسلامی ممالک کے رہنمایان ملت نے ان کااعتراف کیااور سراہا۔شاہ حجاز نےآپ کا احترام کیا اور سلطان  سلطنت عثمانیہ نے آپ کو عزت دی۔ بر صغیر ہند کے مسلمان مولانا محمد طیب کو دارالعلوم دیوبند کے معمار ثانی کی حیثیت سے ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے۔ آ پ  کے استاذومرشد  اور دار العلوم کےمحافظ الامام المجدد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ نےجب آپ   کو دارالعلوم دیوبند کے منصب اہتمام پر فائز کیا اس وقت آپ کی عمر تقریبا ۳۰ سال تھی۔  آپ اس منصب پر ۵۵ سال تک رہے جو اب تک کے دورِ اہتمام کی سب سے لمبی مدت ہے۔  حضرت قاری صاحب ایک خطیب  بےبدل، اعلی تعلیم یافتہ، مرشد بے مثال،اور سب سے اہم یہ کہ وہ اپنے جد محترم  حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم و معارف کے بہترین شارح تھے۔۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ء  میں ۸۸ سال کی عمرمیں  جب آپ کا انتقال ہوا،  اس سے دو سال قبل آپ نےایک عظیم الشان صد سالہ جلسہ منعقد کیا جس میں آپ کی دعوت پر  ۲۰ لاکھ سے زائد  مسلمان اس چھوٹے سے قصبۂ دیوبند میں جمع ہوگئے۔اور تین درجن سے زائد سرکاری وی آئی پی لوگ بھی اس میں شامل ہوئے ، اس قدر شہرت کی وجہ سے حکومتِ ہند حیران تھی،
 

خاندان، ابتدائی حالات اور تعلیم

مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ حجۃالاسلام  مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پوتے ہیں۔آپ کے والد مولانا حافظ محمد احمد صاحب حجۃالاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے فرزند رشید ایک مشہور عالمِ دین  تھےاور انہوں نے دارالعلوم کی بحیثیت مہتمم، اورحیدراباد کی بحیثیت  مفتئ اعظم خدمات انجام دیں۔ نظام (حاکم حیدراباد) نے آپ کے والد کوشمس العلماء کا خطاب دیا تھا۔ آپ کا سلسلہء نسب خلیفۂ اول امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملتا ہے۔

مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ ۱۳۱۵ھ مطابق ۱۸۹۸ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا تاریخی نام مظفرالدین ہے، ۷ سال کی عمر میں دارالعلوم میں داخل کیا گیا۔  ممتاز بزرگوں کے عظیم الشان اجتماع میں مکتب نشینی کی تقریب عمل میں آئی۔ دوسال کی قلیل ترین مدت میں قرآن مجید قرأت وتجوید کے ساتھ حفظ کیا، پانچ سال فارسی اور ریاضی کے درجات میں تعلیم حاصل کرکے عربی کا نصاب شروع کیا، جس سے ۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۱۸ء میں فراغت اور سند فضیلت حاصل کی۔ دوران تعلیم میں امام المحدثین علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور پھر الامام المجدد حکیم الامت  مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اعلی پیمانے اور مخصوص طریق پرآپ کی  تعلیم وتربیت کی ، حدیث کی خصوصی سند آپ کو وقت کے مشاہیر علماء و اساتذہ سے حاصل ہوئی، علامۃ العصر مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ علم حدیث میں آپ کے خاص استاذ ہیں۔ ۱۳۵۰ھ مطابق ۱۹۳۱ء میں الامام المجدد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے خلافت حاصل ہوئی۔

کریئر

علوم کی تکمیل کے بعد آپ نے دارالعلوم میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، ذاتی علم و فضل، ذہانت و ذکاوت اور آبائی نسبت و وجاہت کے باعث بہت جلد طلباء کے حلقے میں آپ کے ساتھ گرویدگی پیدا ہوگئی،اوائل ۱۳۴۱ھ مطابق ۱۹۲۴ء میں نائب مہتمم کے منصب پر آپ کا تقرر کیا گیا، جس پر اوائل ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۸ء تک آپ اپنے والد ماجد مولانا محمد احمد صاحبؒ اور حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحبؒ کی زیر نگرانی ادارۂ اہتمام کے انتظامی معاملات میں حصہ لیتے رہے، وسط ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں مولانا حبیب الرحمٰن صاحب کے انتقال کے بعد آپ کو مہتمم بنایا گیا۔ سابقہ تجربۂ اہلیت کار اور آبائی نسبت کے پیش نظر یہ ثابت ہوچکا تھا کہ آپ کی ذات میں اہتمام دارالعلوم کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔چنانچہ مہتمم ہونے کے بعد آپ کو اپنے علم و فضل اور خاندانی وجاہت و اثر کی بنا پر ملک میں بہت جلد مقبولیت اور عظمت حاصل ہوگئی، جس سے دارالعلوم کی عظمت و شہرت کو کافی فوائد حاصل ہوئے۔

معمار ثانی دارالعلوم دیوبند

دارالعلوم نے آپ کے زمانۂ اہتمام  میں نمایاں ترقی حاصل کی، ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں جب آپ نے انتظام دار العلوم کی باگ ڈور ہاتھ میں لی تواس کے انتظامی شعبے آٹھ تھے جن کی تعداد اب ۲۳ تک پہنچ چکی ہے، اس وقت دارالعلوم کی سالانہ آمدنی کا بجٹ ۵۰۲۶۲روپیہ سالانہ تھا آپ کے زمانے میں ۲۶ لاکھ تک پہنچ گیا۔ ۱۳۴۸ھ مطابق ۱۹۲۹ء میں ملازمین دارالعلوم کے عملے میں ۴۵ افراد تھے اوراب ان کی تعداد دو سو تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت اساتذہ کی تعداد ۱۸ تھی اور اب ۵۹ ہے، طلباء کی تعداد ۴۸۰ تھی اور اب ۲۰۰۰ کے قریب ہے۔ 

اسی طرح عمارتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ دارالتفسیر، دارالافتاء، دارالقرآن، مطبخ جدید، فوقانی دارالحدیث، بالائی مسجد، باب الظاہر، جامعہ طبیہ جدیددومنزلہ دارالاقامہ، مہمان خانہ کی عظیم الشان عمارت، کتب خانے کے وسیع و عریض ہال، دارالاقامہ جدید، افریقی منزل، مطبخ کے قریب تین درسگاہوں کا اضافہ حضرت  ممدوح ہی کے دور اہتمام کی تعمیرات ہیں۔  نیز حضرت الامام محمد قاسم النانوتویؒ مسجد چھتہ کے جس کمرے میں درس و تدریس اور تلقین فرماتے تھے  وہ عمارت امتداد زمانہ سے بوسیدہ ہوگئی تھی، اس لئے دوبارہ اس کی تعمیر کی گئی۔
غرض کہ دارالعلوم کے ہر شعبے نے آپ کے دور اہتمام میں نمایاں ترقی کی ہے۔ دارالعلوم کی مجالس انتظامیہ و شوریٰ نے مختلف اوقات میں آپ کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف اور اظہار قدردانی کے سلسلے میں متعدد مرتبہ تجاویز پاس کی ہیں، دارالعلوم کی شمع کو روشن رکھنے کے لئے اس پیرانہ سالی میں بھی جوانوں کی طرح سرگرم عمل ہیں۔

یہ وہ خدمات ہیں جو آپ نے دارالعلوم کے احاطے میں رہ کر انجام دی ہیں۔ لیکن عالمی پیمانے پردارالعلوم کو اور  اسلام ومسلمانوں کےتئیں دارالعلوم کی خدمات کو متعارف کرانے میں بھی آپ پیش پیش رہے۔ اور اس کے لئے آپ نے بیرونی ممالک، افغانستان، بنگلہ دیش، کناڈا، مصر، حبش، فرانس، جرمنی، انڈونیشیا، کینیا، مڈغاسکر، ملیشیا، میانمار، پاکستان، ری یونین، روڈیشیا، ساؤتھ افریقہ، کویت، امریکہ ،  اورزنجباروغیرہ کا دورہ بھی کیا۔ آل انڈیا ریڈیوپر آپ کی تقریریں نشر ہوئیں اور پورے عالم کو معلوم ہوگیا کہ دار العلوم دیوبند کیا ہے اور علماء دیوبند اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیاخدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کے دورِ اہتمام میں دنیا کے گوشے گوشے سے طلباءنے دیوبند میں آکر دینی علوم حاصل کرنا شروع کردیا۔ 

مؤسس و بانی  آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکا قیام اس وقت عمل میں آیا جب حکومت ہند نے یکسان سول کوڈ کے نفاذ کے ذریعہ مسلمانوں کے شرعی قانون کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔قانونِ متبنی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔  مسٹر ایچ آر گوکھلے، پھر یونین لا منسٹر نے اس بل کو یونیفارم سول کوڈ کی جانب پہلا قدم قرار دیا۔مسلمانوں کے خلاف  حکومت کی ریشہ دوانیوںکے سد باب کے لئے مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے فور ایک جرأت مندانہ اقدام کیا۔حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کےمنصوبہ کو  لیکر ایک میٹنگ ہوئی جس میں ممبئی میں ایک عمومی  کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔  چنانچہ ۲۷ اور ۲۸ دسمبر ۱۹۷۲ کو ممبئی میں ایک تاریخی کنونشن منعقد ہوا۔ یہ ایک غیر معمولی کنونشن تھا۔ مسلم پرسنل لا کی حفاظت کے لئے مسلمانانِ ہند  متحد ہوگئے۔اور اس کنونشن کے داعیوں اور مندوبین کی متفقہ رائے سے  آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔

ممبئی کنونشن کے فیصلہ کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام بتاریخ۷/اپریل  ۱۹۷۳ حیدراباد کے اجتماع میں باقاعدہ طورپر عمل میں آیا، اور ہندوستان میں تحفظ شریعت اسلامیہ کی تحریک کے لئے حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحبؒ کو اس بورڈ کا بانی و صدراول بنایا  گیا، اور آپ اخیر عمر تک بالاتفاق اس متحدہ بورڈ کے صدر رہے اور مسلمانوں کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔  اس کے بعد صدر ثانی کی حیثیت سے مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ   کا انتخاب عمل میں آیا۔ 

بر صغیر ہند کا ایک بے مثال  خطیب

علمی سلسلے میں درس و تدریس کے علاوہ فن خطابت و تقریر میں آپ کو خداداد ملکہ اور قوت کویائی حاصل تھی۔ اور زمانۂ طالب علمی ہی سے آپ کی تقریریں عوامی جلسوں میں شوق کے ساتھ سنی جاتی تھیں، اہم سے اہم مسائل پر دودو تین تین گھنٹے مسلسل تقریرکرنے میں آپ کو کوئی رکاوٹ اور تکلف نہیں ہوتا تھا، حقائق اور اسرار شریعت کے بیان اور ایجازِ مضامین  میں آپ کو  خاص قدرت حاصل تھی۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ آپ کے علمی اور حکیمانہ اسلوبِ بیان سے خاص طور پر محظوظ ہوتا تھا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دوسری یونیورسٹیوں میں آپ کی تقریریں خاص طور پر مقبول ہیں۔ اور بعض معرکۃالآراء تقریریں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شائع بھی ہوچکی ہیں۔ ملک کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جس میں آپ کی تقریروں کی گونج نہ پہنچی ہو۔ ان کی رواں دواں اور دلکش تقریر جب علم کے گہرے سمندر سے گزرتی ہے تو لہروں کا سکوت قابل دید ہوتا ہے۔ آپ کے انتقال کے ۲۵ سال بعد بھی آپ کی روحانی اور علمی تقریروں کےآڈیوزبڑی قدر اور علم میں اضافہ کے مقصد سے سنی جاتی ہیں۔آج کے علماءاس بات کے معترف ہیں کہ مولانا قاری محمد طیبؒ کی تقریروں میں علوم کے خزانے ملتےتھے ، اپنے عوامی خطاب اور درس  میں جانے سے قبل ان کی تقریروں کو سنتے اور پڑھتے تھے۔

آپ کی خدمات عمائد اسلام کی نظر میں

جمعیۃ العلماء کے سالانہ اجلاسوں میں آپ کے خطباتِ صدارت بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھے گئے ہیں۔ آپ کی علمی تقریروں سے ایک خاص حلقۂ اثر پیدا ہوگیا ہے۔ بیرون ہند میں بھی آپ کی خطابت کے اثرات وہاں کے علمی حلقوں میں پہنچ چکے ہیں۔۱۳۵۳ھ مطابق ۱۹۳۴ء میں بسلسلۂ سفر حجاز آپ نے ہندوستان کے ایک مؤقر وفد کے صدر کی حیثیت سے سلطان ابن سعود کے دربار میں جو تقریر فرمائی اس نے سلطان کو بہت متأثرکیا۔ سلطان ابن سعود نے شاہی خلعت اور بیش قیمت کتب کے عطیے سے اعزاز بخشا۔
سعودیہ عربیہ سے شاہ خالد کی تحریر  اس اجلاس کے دوران آئی کہ: بسبب علالت صحت میں  اس عظیم الشان اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتاجو آپ کی سرپرستی میں جاری ہے۔ تاہم میں یقین دلاتا ہوں کہ میں ہمیشہ  آپ کے شانہ بشانہ ہوں اور آپ کے مقدس منصوبہ کی تکمیل کے لئے ہر طرح کی امدادواعانت  کے لئے میں تیار ہوں ۔  سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد وی آئی اس قدر متأثر ہوئے کہ انہوں نے ایک کپڑا ان کو تحفہ میں دیا جس کی بابت کہاجاتاہے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ کا غلاف تھا۔ یہ کپڑا آج بھی دارالعلوم میں عوام کی زیارت کے لئے رکھا ہوا ہے۔

۱۳۵۸ھ مطابق ۱۹۳۹ء میں آپ کا سفر افغانستان علمی خدمات کی ایک مستقل تاریخ ہے، آپ نے دارالعلوم کے نمائندے کی حیثیت سے دارالعلوم اور حکومت افغانستان کے درمیان علمی و عرفانی روابط قائم کرنے کے لئے یہ سفر اختیار فرمایاتھا، افغانستان کے علمی حلقوں نے شایان شان آپ کا خیرمقدم کیا، حکومت نے اپنی میزبانی کے شرف سے نوازا، افغانستان کی علمی و ادبی، سرکاری اور غیرسرکاری انجمنوں اور سوسائٹیوں نے مدعو کیا، آپ کی عالمانہ تقریروں سے وہاں کے علمی وادبی حلقے بہت متأثر ہوئے۔ شاہ افغانستان ظاہرشاہ نے دیوبند کی زیارت کی اور دارالعلوم دیوبند کی ترقی میں ہر ممکن امداد کی پیشکش کی۔پاکستان کےجنرل ضیاء الحق کو آپ سے اس قدر لگاؤ تھا کہ آپ جب بھی پاکستان تشریف لے جاتے وہ آپ کولینے کےلئے  ایرپورٹ پہنچ جایا کرتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی دلکش شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں۔ شرافت و انسانیت، سراپا انکسار، پاک باطنی، علم و فضل، خطابت و تقریر، اور وعظ و تلقین سادگی اور عجز و انکسار، دمِ گفتگو حکیمانہ فصاحت و بلاغت ، غرض کہ ان کی پر عظمت شخصیت اعمال و کردار اورجلال و جمال کا ایک حسین امتزاج ہے۔

تعلیم و تدریس، منصوبے اور دعوت و تبلیغ

دارالعلوم کے انتظامی امور کے علاوہ جن چیزوں سے آپ کو دلچسپی تھی وہ تعلیم و تدریس اور دعوت و تبلیغ ہیں، ان کمالات کی وجہ سے ملک میں آپ کو امتیازی مقام حاصل تھا، تفریحی ذوق مطالعۂ کتب اور تصنیف و تالیف تھا۔ آپ کا یہ مشغلہ دارالعلوم کے انتظامی معاملات اور اوقات درس و تدریس کے علاوہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ بالخصوص دورانِ سفر کے فارغ اوقات اسی میں صرف ہوتے تھے۔ زمانۂ قیام میں عصر سے مغرب تک مردانے میں مجمع رہتا تھا۔ جس کا موضوع عموماً علمی مذاکرے ہوتے تھے، شاعری سے بھی مناسبت تھی، متعدد نظمیں شائع ہوچکی ہیں، مجموعۂ کلام عرفان عارف کے نام  سے شائع ہوچکاہے۔

آپ کی تصنیفی و تالیفی خدمات

خطابت و تقریرکی طرح تحریر و تصنیف پر بھی قدرت حاصل ہے، آپ کی تصانیف کی تعداد کافی ہے۔ چند کتابوں کے نام درج ذیل ہیں:
التشبہ فی الاسلام، مشاہیر امت، کلمات طیبات، اطیب الثمرفی مسئلۃ القضاء والقدر، سائنس اور اسلام، تعلیمات اسلام اور مسیحی اقوام، مسئلۂ زبان اردو ہندوستان میں، دین و سیاست، اسباب عروج و زوال ِ اقوام، اسلامی آزادی کا مکمل پروگرام، الاجتہاد والتقلید، اصول دعوتِ اسلام، اسلامی مساوات، تفسیر سورۂ فیل، فطری حکومت وغیرہ۔

آخری ایام

آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک ملت اسلامیہ  کے لئے خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۰ میں جشن آغاز دارالعلوم دیوبند کے بعد حکیم الاسلام قاری محمد طیب ؒکی صحت بہت تیزی سے بدلنے لگی۔ پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آپ اپنی قیام گاہ پر لوگوں سے ملاقات فرماتے تھے۔بالآخر یوم اجل آ گیا اور ۱۷/جولائی  ۱۹۸۳ مطابق ۶/شوال ۱۴۰۳ھ بروز اتوار آپ اپنے اعمال حسنہ کی جزاء پانے کے لئے داعئ اجل سے جاملے،اس وقت آپ کے گرد بہت سے جانثار و محبین موجود تھے جو اللہ سبحانہ و تعالی کے نام کی تلقین کر رہے تھے۔ آپ کی نماز جنازہ دارالعلوم دیوبند کے احاطہ میں آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نے پڑھائی۔ ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی۔ آپ کے جسد خاکی کو آپ کے جد امجد اور بانئ دارالعلوم دیوبند حجۃالاسلام محمد قاسم النانوتوی کے قبر مبارک  کے بالکل قریب دفن کیا گیا ہے، اللہ تعالی سب کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔