Select Language
EN  |  UR  |  AR

    فوری لنکس  

امام المجددین حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  قدس سرّہ العزیز

المتوفیٰ۱۳۶۲ھ


تعارف
ولادت اورتربیت
دار العلوم دیوبند میں اسلامی علوم کا حصول
استاذ الاساتذہ
تعلیم اور مستقبل کے امکانات
روحانی تربیت حاجی امداداللہ صاحبؒ سے
تصوف کے استاذ
روحانی کوششوں کا اثر
آپ کے تلامذہ
تصنیفی خدمات
قرآن کریم: مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا خاص مشغلہ
مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانویؒ داعی الی اللہ کی حیثیت سے
تواضع و سادگی
حکیم الامت اور سیاست
ایک عظیم شخصیت کی رحلت

تعارف

سولہویں صدی کے مجدد الف ثانیؒ ، اٹھارہویں صدی کے مجدد شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ  اورانیسویں صدی کے مولانا محمد قاسم النانوتویؒ کے بعد بیسویں صدی کے سب  سے کامیاب مجدد مولانا اشرف علی تھانویؒ ہیں جن کوچوتھا مقام حاصل ہے ۔ بر صغیر ہند میں قرآن و حدیث اور تصوف کا اتنا بڑا عالم پیدا نہیں ہوا۔ بر صغیر ہند میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا وہ مقام ہے جوامام غزالیؒ کا تھا ۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تصانیف اور مکتوبات کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ جن کو جنوبی ایشیاکے مسلمانوں نے حکیم الامت (امت مسلمہ کا روحانی معالج) اور مجدد الملت کا لقب دیا ہے ، بیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں بیداری لانے  والے اور اسلامی انقلاب کی ایک بلند پایہ شخصیت تھے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنے وقت کی سب سے معروف مذہبی  شخصیت تھی، وہ کثیرالتصانیف مصنف تھے اوران کو جدید ہندوستان کا سب سے بڑا صوفی سمجھاجاتاتھا۔

آپ نےدرس و تدریس، دعوت و تبلیغ، تصنیف و تالیف، وعظ و تقریر اور گاہے بگاہے سفرکرتے ہوئے  بہت فعال زندگی گزاری ہے۔ وہ امتیازی علامت اور رہنما اصول جن سے آپ کے پیغام کو بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی،آپ  کی تقریروں اور تحریروں میں بے باکی اور اعتدال و سچائی کا غیر معمولی احساس تھا۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ  اس آیتِ قرآنی کا نمونہ تھے کہ: اور ایسے ہی ہم نے بنایا ہے تم کوایک جماعت جو ہر پہلو سے اعتدال پر ہے تاکہ تم مخالف لوگوں کے مقابلہ گواہ ہو (قرآن: ۲/۱۴۳)۔ علوم دینیہ کے تمام شعبوں پر آپ کی مکمل نظر تھی اور یہ بات آپ کی شخصیت، آپ کی تقاریر اور تصنیفات میں خوب عیاں تھی،قاضئ ہند مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ فرماتے ہیں کہ شاید ہی دین کا کوئی شعبہ ایسا ہو جس میں آپ کی تصانیف موجود نہ ہوں،
ان کے  مذہبی نظریات زیر بحث مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر مشتمل ہیں، اور مختلف مسائل پر ان کی آراء خالص روایتی اسلامی افکار کی عکاس ہیں، آپ کی ذکاوت و ذہانت، درس و تدریس  اور تربیت کا نیا انداز، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت، وقت کا صحیح نظم، وسعت ظرف،  صبر و ضبط، اسلامی احکامات کی سمجھ  کی وجہ سے آپ کو اسلامی تاریخ میں ایک مستقل جگہ مل گئی ہے،  
آپ کوعظیم مصلح ،  شیخِ طریقت ، کثیر التصانیف  مصنف، روحانی معالج،دانشورحکیم اور اسلامی روایات کے امین کے طور پر یاد کیا جائے گا، جنہوں نے  اس وقت جب کہ مسلمان مغربی سامراجی طاقتوں کے جسمانی اور ذہنی  حملوں کا شکار تھے ، اپنی تقریروں، تحریروں، فتاوی،اور  روحانی تربیت کی شکل میں  علمی اور ادبی اسلحہ سے ان مسلمانوں کی مدد کی تاکہ جدید دور کے تمام غیر دینی  اثرات  کا مقابلہ کرسکیں۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی گراں قدر دینی خدمات اورکار ناموں کے ذکر میں مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت تھانویؒ کی خدمات کی نظیر گذشتہ کئی صدیوں میں نہیں ملتی۔

ولادت اور تربیت

مولانا اشرف علی تھانویؒ جن کا نام دادیہال میں عبد الغنی تھا، کی پیدائش ۵/ربیع الاول ۱۲۸۰ھ ضلع مظفرنگر،یوپی،انڈیا کے ایک گاؤں تھانہ بھون  میں ہوئی۔ ایک بہت ہی مشہور زمانہ بزرگ حافظ غلام مرتضیٰ صاحب پانی پتیؒ نے آپ کا نام اشرف علی رکھا، جو آپ کے دادیہالی رشتہ میں تھے۔
آپ کا گھرانہ  بہت عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، اوراس کو پورے تھانہ بھون میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔آپ کے والد ماجدعبد الحق صاحبؒ ایک مالدار زمیندار ، دیندار مسلمان اور تھانہ بھون کے ایک معزز شخص تھے۔ عبد الحق صاحبؒ کو فارسی زبان میں بہت مہارت حاصل تھی۔گو آپ حافظ نہ تھے، مگرآپ کو قرآن
اس طرح معلوم تھا اگر کبھی امام درمیان نماز غلطی کرے توفوراً ٹوک کر درست کردیتے تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓ سے ملتا ہے،جن کی ذہانت، حکمت و دانائی، پیش بینی، زہد و تقوی اور اخلاص کا عکس حضرت تھانویؒ میں صاف نظر آتا تھا۔ 
بچپن ہی سے نماز کا شوق تھا، اور جب ۱۲ سال کے ہوئے تو تہجد کی نماز پابندی سے ادا کرنے لگے، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے ماموں واجد علیؒ اور مولانا فتح محمدؒ سے تھانہ بھون میں  پڑھیں۔ اوربہت ہی کم عمری میں  حافظ حسین علی میرٹھی ؒسے قرآن شریف کا حفظ مکمل کیا۔

دار العلوم دیوبند میں روایتی دینی   علوم  کا حصول

۱۲۹۵ھ میں دارالعلوم میں داخلہ لیااوراپنے وقت کے ماہر علماء کے زیر سایہ رہ کر علوم حاصل کئے اور پھر ۱۳۰۱ھ میں فراغت حاصل کی،آپ کے اساتذہ میں حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم النانوتویؒ، امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ اور شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ تھے۔ حضرت تھانویؒ نے  دیوبند میں خدا ترس بزرگانِ دین کی ہدایت اور نگرانی میں  چھ سال گزارے، جن میں سے اکثر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے روحانی تلامذہ تھے۔

دارالعلوم دیوبند کا روحانی ماحول ، بہترین اساتذہ، اور خود حضرت تھانویؒ  کی اپنی ذکاوت وذہانت اورلگن  نے ان کو اس مقام تک پہونچا دیا جو آج ان کی شخصیت میں بالکل نمایاں ہے۔ آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ  دارالعلوم دیوبند میں شروع کیاجہاں آپ نے ۱۸ سال کی عمر میں فارسی میں مثنوی زیروبم تالیف فرمائی۔  اسی عمر میں آپ کو اردو، عربی اور فارسی میں بے مثال مہارت بھی حاصل تھی۔

استاذ الاساتذہ

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کو بانئ دارالعلوم دیوبند سے زیادہ استفادہ کا موقع نہیں ملا کیونکہ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا پہلا سال حضرت مولانا نانوتوی ؒ کی زیست کا آخری سال تھا۔ مولانا اشرف علی تھانوی ؒ خود بیان کرتے ہیں کہ وہ کبھی کبھی تفسیر جلالین (مولانا جلال الدین محلی اور ان کے شاگردمولانا جلال الدین سیوطیؒ کی مشہور تفسیر ) کے درس میں حاضر ہوتے تھے، مولانا اشرف علی تھانویؒ کو جن دوشخصیات سے زیادہ فوائد حاصل ہوئے وہ امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ اور مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ ہیں۔
حکیم الامت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ :  اساتذہ میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کو چھوڑ کر  میرا  روحانی تعلق سب سے زیادہ مولانا گنگوہی ؒ سے  تھا، میں نے کبھی بھی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسی بے مثال شخصیت نہیں دیکھی جس میں ظاہری اور باطنی خوبیاں اس طرح جمع ہوں ۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کو حضرت گنگوہیؒ سے شفقت و محبت  کے ساتھ روحانی تربیت بھی ملی تھی۔ جب حضرت تھانویؒ کا ورود ہوتا تو امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ فرماتے کہ: 'جب تم آتے ہو تو میرے اندر ایک تازگی پیداہوجاتی ہے'۔ ایک مرتبہ مولانا اشرف علی تھانوی تقریر کیلئے گنگوہ پہونچے، امام ربانی رشید احمد گنگوہیؒ نے اپنے تمام ملاقاتیوں کو ان کی تقریر سننے کے لئے بھیج دیا، اور یہ کہا کہ تم لوگ یہاں کیا کررہے ہو؟ جاؤ اور ایک سچے عالم دین کی تقریر سنو۔ حضرت گنگوہیؒ اپنے تلامذہ کو بھی اس بحر العلوم (مولانا اشرف علی تھانویؒ) کے علم و عرفان سے استفادہ  کے لئے تھانہ بھون بھیجتے تھے۔
حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ کی توجہات خصوصی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ساتھ وابستہ رہیں ،مولانا یعقوب نانوتویؒ نے سمجھ لیا تھا کہ اشرف علی تھانوی ایک غیر معمولی اور نہایت عمدہ اخلاق کا حامل طالب علم ہے،چنانچہ مولانا یعقوب نانوتویؒ جب اس طالب علم کو درس دیتے توپیچیدہ مباحث کوضرور بیان کرتے، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ حضرت مولانا یعقوب نانوتویؒ کی تقاریر سے متعلق فرماتے ہیں کہ: آپ کی تقاریر کوئی معمولی تقاریر نہیں تھیں بلکہ  یہ وہ مجلسیں ہوتی تھیں جن میں لوگ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے تھے، جب آپ قرآن کریم کی تفسیر بیان فرماتے تو آپ کے رخسارآنسؤوں سے تر ہوجاتے تھے۔

تعلیم اور مستقبل کے امکانات

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے دار العلوم دیوبند سے ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں فراغت حاصل کی، جب امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ تعلیمی تقریب کے لئے تشریف لے گئے، شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ نے ان کو بتایا کہ اس دن ایک بہت ہی ہونہار اور ذہین طالب علم  فارغ ہورہا ہے، حضرت گنگوہی کو شوق ہوا کہ اس طالب علم کا امتحان لیا جائے، چنانچہ تقریب شروع ہونے سے قبل مولانا گنگوہیؒ نےبہت مشکل مشکل سوالات پوچھے، لیکن جب مولانا تھانویؒ نے جوابات دئے تو مولانا گنگوہیؒ حیرت میں پڑگئے اور بہت خوش ہوئے۔
آپ کی دستار ِ فضیلت امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے متبرک ہاتھوں سے ہوئی، اس سال جلسۂ تعلیمی گذشتہ سالوں سے قدرے مختلف تھا، اور بہت جوش و لگن سے اساتذۂ دیوبند اس کو منعقد کررہے تھے، اس موقع پر مولانا اشرف علی تھانوی اپنے چند رفقاء کے ساتھ اپنے استاذ مولانا یعقوب صاحب کے پاس گئے اور عرض کیا کہ: ہم اس تقریب کے مستحق نہیں ہیں، اور ہمارے علم سے دار العلوم دیوبند کی بد نامی بھی ہوسکتی ہے، مولانا یعقوب صاحبؒ  مولانا اشرف علی تھانوی کی یہ بات سن کر غصہ ہوگئے اور فرمایا: تمہاری یہ سوچ بالکل غلط ہے، دارالعلوم میں اپنے اساتذہ کے درمیان ہوتے ہوئے تم اپنی شخصیت کو بہت کمزور اور غیر اہم تصور کرتے ہو اور در حقیقت ایسا ہونا بھی چاہئے، مگر جب تم تعلیم مکمل کرلوگے اور اس ادارہ سے باہر نکلوگے تو تم کو اپنی قدروقیمت کا اندازہ ہوگا ، میں بخدا کہتا ہوں کہ تم جہاں بھی ہوگے کامیاب ہوگے اور لوگوں کامرکز بنے رہوگے، تمہارے سامنے میدان کھلا ہوا ہے اور خالی ہے۔ دارالعلوم دیوبند سے علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنے والد صاحب کی معیت میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور اپنا پہلا حج ادا کیا، اور تجوید و قرأت کی مشق مکہ مکرمہ میں قاری محمد عبد اللہ مہاجر مکیؒ سے کی۔ مکہ مکرمہ میں آپ کو حضرت مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ کی معیت میں بھی رہنے کا موقع ملا جن کی روحانی توجہ، پرنور شخصیت، روشن ہدایات اور  شاندار طریقۂ تربیت نے ایک بڑی اصلاحی تحریک کے لئے آمادہ کردیا جس کے لئے آپ وجود میں آئے تھے ۔

روحانی تربیت حاجی امداد اللہ صاحب ؒ سے

اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: علماء کی صحبت اپنے لئے لازم کرلو اور عقلمندوں کی باتوں کو سنو کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ حکمت و دانائی کی روشنی سے مردہ دلوں میں جان ڈال دیتے ہیں، جیسے کہ بارش برساکر مردہ زمین کو زندگی بخش دیتے ہیں(عسقلانی۲۵)۔ نیک اور خداترس شیخ کی صحبت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے، کتابوں کے علم سے ظاہری اصلاح ہوتی ہے، اور کسی شیخ کی صحبت سے احوال باطن کی اصلاح ہوتی ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ تزکیۂ نفس اور باطن کی اصلاح پر زیادہ توجہ دیتے تھے، دارالعلوم دیوبند کے طالب علمی کے زمانے میں ہی آپ نےروحانی علوم کی تربیت کے لئے امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ  سے درخواست کی، مگر مولانا نے  روایتی تعلیم مکمل کرلینےتک  انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ بے چین ہوگئے اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے روحانی پیشوا مولانا حاجی امداد اللہ صاحب سے درخواست کی کہ ان کی سفارش مولانا گنگوہیؒ سے کردیں، جب مولانا گنگوہیؒ حج کو تشریف لے گئے ، حضرت تھانویؒ نے ان سے حضرت حاجی امداداللہ صاحبؒ کے نام ایک خط بھیجااور اس قائد اعظم سے درخواست کی کہ مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو امادہ کردیں کہ وہ ان کو اپنی روحانی ہدایت میں لے لیں۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحبؒ نے  بہت ہی خوب فرمایاکہ:بہت اچھا،  میں خود ہی دیکھوں گا اور حضرت تھانویؒ کو لکھا کہ تم پریشان مت ہو، میں نے تم کو اپنی  ہدایت میں لے لیا ہے، جب حضرت تھانویؒ نے یہ خط پڑھا تو آپ بہت مسرور ہوئے۔  امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ حضرت تھانویؒ کو کہا کرتے تھے کہ بھائی تم نے حاجی امداداللہ صاحب کے پکے ہوئے پھل  کھائے ہیں جبکہ ہم کو کچے پھل نصیب
ہوئے ہیں،پھل سے مراد علم ہے۔ امام ربانی رشید احمد گنگوہیؒ اور ان کے رفقاء نے حضرت حاجی امداداللہ صاحبؒ سے روحانی فیض حاصل کیا جب آپ ابھی بر صغیر ہند میں تھے، جبکہ حضرت تھانوی نے ان کے زندگی کے آخری سالوں میں ان سے فائدہ حاصل کیا۔ اسی وجہ سے حاجی امداداللہ صاحب کی زندگی کے آخری ایام کی تربیت کو پختہ پھل سے اور پہلے کی تربیت کوغیر پختہ پھل سے  تعبیر کیا گیا۔
حضرت تھانویؒ نے اپنے پہلے حج کے دوران ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں حضرت حاجی امداداللہ صاحب سے ملاقات کی لیکن زیادہ دن آپ کی صحبت میں نہ رہ سکے۔ ۱۳۱۰ھ مطابق ۱۸۹۳ء میں مولانا اشرف علی تھانویؒ جب دوسری بار حج کے لئے تشریف لے گئے  تو حج کی ادائگی کے بعد چھ ماہ ان کی خدمت میں قیام کیا۔
تعلیم مکمل کے لینے کے بعد کانپور شہر میں علوم دینیہ کی درس و تدریس میں ۱۴ سال گذارے۔ بہت ہی کم عرصہ میں حضرت تھانوی  ایک بلند پایہ عالم دین کے طور پر مشہور ہوگئے، بہت سارے طلباء آپ کے درس کی طرف راغب ہوئے اور آپ کی تحقیق اورتصنیف و تالیف  سے اسلامی علوم کا حلقہ وسیع ہوا۔  ان چودہ سالوں میں لوگوں کی اصلاح کی خاطرتقریر کرنے کے لئے بہت سارے شہروں اور گاؤں کا سفر بھی کیا۔ ان اسفار کے بعد آپ کے چھَپے ہوئے مواعظ اورمقالات بہت مشکل سے دستیاب ہوتے تھے۔ تاریخ اسلام میں بہت ہی کم علماء ہیں جن کی حیات ہی میں ان کے مواعظ چھَپے اور دور دور تک پہونچے ہیں۔ کانپور میں قیام کے دوران ہی آپ کے دل میں لوگوں کی اصلاح کا داعیہ پیدا ہوا۔ 
بالآخر ۱۳۱۵ھ میں مدرسہ کانپور سے قطع تعلق کرکے اپنے پیر و مرشد کی یادگار خانقاہ تھانہ بھون میں قیام پذیر ہوگئے۔حاجی امداداللہ صاحب ؒ کو جب معلوم ہوا تو تحریر فرمایا کہ: "بہتر ہوا کہ آپ تھانہ بھون تشریف لے گئے ، امید ہے کہ خلائق کثیر کو آپ سے فائدہ ظاہری و باطنی ہوگا، اور آپ ہمارے مدرسہ اورخانقاہ کو  ازسرِ نو آباد کریں گے، میں ہروقت آپ کے لئے دعا کرتاہوں۔"

تصوف کے استاذ

امام المجدد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ جدید ہندوستان کے سب سے بڑے صوفی سمجھے جاتے ہیں، تصوف کی جانب آپ کا قدم قرآن و حدیث کے عین مطابق تھا، دارالعلوم دیوبند سے تعلق رکھنے والے علماء کرام کے  بارے میں کینتھ ڈبلیو جونس نے لکھا ہے کہ :
دیوبندی حضرات اسلام کے دو اہم اجزاء کو مرکز توجہ تصور کرتے ہیں،شریعت ( ایک قانون جس کی بنیاد آسمانی کتابوں اور دینی علوم پر ہے) اور طریقت (جو دینی تجربہ سے حاصل کردہ ایک راستہ ہے)۔ اسی وجہ سے یہ حضرات تصوف کو اس کے اصولوں کے ساتھ مانتے ہیں، اور شریعت اسلامیہ کے چاروں مذاہب کی تشریح میں علماء کا کردار اہم تصور کرتےہیں۔ قرآن، حدیث، قیاس اور اجماع دینی علوم کی بنیاد ہیں، مگر ان کو سمجھنے کے لئے علماء کی رہنمائی ضروری ہے۔ غیر پڑھے لکھے لوگ عقیدہ اور عمل میں صحیح فیصلہ نہیں کرسکتے۔ دیوبندی علماء کرام نےایک طرف تو تصوف کو اختیار کیا اوردوسری جانب مختلف مسلکوں اور نام نہاد روحانی پیشواؤں کی طاقت کوختم  کیا جو علم کے بجائے  اپنے اثرورسوخ سے بزرگ بنے ہوئے تھے۔ آدمی کے اندر قوت علم سے آتی ہے وراثت سے نہیں۔ بزرگوں کے مزارات کا سفر کرنا اور سالانہ عرس منانا بھی اسلامی عمل نہیں ہے۔کوئی بھی معاشرتی یا مذہبی عمل جو ہندو تہذیب سے آیا ہو وہ بدعت تصور کیا جاتا ہے۔
علماء دیوبندنے اسلامی عقیدے کو بر صغیر ہند میں تمام غیر اسلامی  طریقوں سے پاک کیااور اس تصوف کو اپنایا جس کی تائیدحسن البصریؒ، جنید البغدادیؒ اور عبدالقادر الجیلانیؒ جیسے مسلمان  کرتےاگروہ بیسویں صدی میں موجودہوتے ۔پاکیزہ تصوف اسلامی عقیدہ کا ایک اہم حصہ ہے، دارالعلوم دیوبند نے افراد کی ایسی  تربیت کی کہ وہ علوم عقلیہ کےعالم بن گئے اور تصوف کو اپنا مشغلہ بنالیا۔ اسلامی تاریخ نے ایک بار پھر مشاہد ہ کیا کہ تحریک دیوبند کی وجہ سے شریعت و طریقت ایک دوسرے سے ہم آغوش ہوگئے ۔  باربرا ڈیلی میٹکاف نے اپنے تحقیقی مقالہ 'برطانوی سامراجی ہندوستان میں احیاء اسلام' دیوبند ۱۸۶۰–۱۹۰۰ میں ایک باب کا عنوان 'مفتیان کرام اور شیوخ' رکھ کر اس خوبصورت مجموعہ کی تائید کی ہے۔ 

روحانی کوششوں کا اثر

امام شافعیؒ نے فرمایا کہ: علم وہ نہیں ہے جو سینوں میں محفوظ رہے  بلکہ علم وہ ہے جس سے دوسروں کو نفع پہونچے،  امام  المجددین حضرت تھانویؒ کا علم ایسا تھا کہ اس سے صرف علماء ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کومسلسل  فوائد حاصل ہوئے ، حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کے الفاظ سامعین کے  کانوں سے اترکر دلوں کو جھنجھوڑتے اور باطن کے زنگ کو دور کرتے۔ مفتی محمد شفیع صاحب سابق مفتئ اعظم دارالعلوم دیوبند ثم مفتئ اعظم پاکستان، تقسیم ہند کے بعد امام المجدد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے سامنےایسے بیٹھتے تھے جیسے روایتی دینی علوم کے تلامذہ اپنے استاد کے سامنے بیٹھا کرتےہیں ، آپ بہت قریب سے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کودیکھتے اور آپ کی ہر حرکت سے یہی محسوس ہوتا کہ آپ نے اس دنیا و مافیہا کو اس حال میں ترک کیا کہ آپ اپنے شیخ کی  زیارت میں مصروف رہتے ، جب حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ  کوئی بات کہتے جو نوٹ کرنے کے قابل ہوتی تومفتی محمد شفیع صاحبؒ جوہرچیز سے بے خبر ہوکر  اپنے شیخ پر مکمل فدا تھے خوشی کے مارے اچھل پڑتےتھے۔ (عثمانی،اکابر دیوبند کیا تھے؟۳۰)۔
مفتی محمد تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ: حضرت حکیم الامتؒ لوگوں کی روحانی بیماریوں کی مناسب دواؤں کی تجویز پر بہت زور دیتے تھے، اس علاج میں کسی کو کوئی طبی دوا دینا یا وظائف میں مشغول رکھنا نہیں تھا،بلکہ آپ  کے تجویز کردہ علاج میں عمل کا بہت دخل تھا (ارشاداتِ اکابر)۔

آپ کے تلامذہ

المجدد مولانا اشرف علی تھانویؒ کے تلامذہ اورمتبعین  میں جنوبی ایشیا کے مقتدر علماء کی ایک جماعت تھی، آپ کے تلامذہ جنوبی ایشیا کے ہر حصہ میں مختلف طریقوں سے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہوگئے، آپ کے مشہور تلامذہ میں حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیبؒ (بانئ دارالعلوم دیوبند الامام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پوتے اور ۱۹۲۹ سے ۱۹۸۳تک پچاس سال سے زائد عرصہ تک دارالعلوم دیوبند کے مہتمم)، مولانا محمد مسیح اللہ خان صاحبؒ ( بانئ مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد انڈیا، اور گذشتہ صدی کی ایک معروف روحانی شخصیت)، مفتی محمد شفیع صاحبؒ (تقسیم سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے صدر مفتی  اور پاکستان ہجرت کرنے کے بعد دارالعلوم کراچی جو آج پاکستان میں علوم دینیہ کا ایک بہت بڑا مدرسہ ہے کے بانی اور پاکستان کے سابق مفتئ اعظم)،مفتی محمد حسن صاحب امرتسریؒ (بانئ جامعہ اشرفیہ لاہور پاکستان)، مولانا خیر محمد جالندھری (بانئ جامعہ خیر المدارس ملتان پاکستان)، مولانا عبد الباری ندویؒ (ہندوستان کے مشہور متکلم  اور فلسفی جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدراباد میں فلسفہ کی تعلیم دی اورمغربی فلاسفہ کی کتابوں ، مثلاً Descartes کا اردو میں ترجمہ کیا اور اپنے پیچھے بہت سی قیمتی ادبی تحریروں کا سلسہ چھوڑا)سید سلیمان ندویؒ (عظیم محقق اور مولانا شبلی نعمانی اعلی طالب علم جنہوں نے اصلاح باطن کےلئے المجدد مولانا اشرف علی تھانویؒ کی جانب رجوع کیا)، مولانا محمد الیاس صاحبؒ (بانئ تبلیغی جماعت)، مولانا عبدالماجد دریابادی، مولانا اطہر علی سلہٹ، مولانا شمس الحق فریدپوری، مولانا محمد عبد الغنی پھولپوریؒ، مولانا شاہ محمد ابرارالحق ہردوئی، خواجہ عزیزالحسن مجذوبؒ (بڑے شاعر اور بزرگ، اشرف السوانح کے مصنف جو مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سوانح حیات ہے اور چار جلدوں میں ہے)، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ (قرآن کریم کی تفسیر معارف القرآن  اور حدیث تبریزی کے مجموعۂ احادیث مشکوۃ المصابیح کی شرح التعلیق الصبیح کے مصنف)، مولانا ظفر احمد عثمانی (۲۲ جلدوں میں فقہ حنفی کے مجموعہ  اعلاء السنن کے مصنف)، مفتی جمیل احمد تھانویؒ، مولانا شبیر علی تھانویؒ، ڈاکٹرعبدالحئ عارفی ؒ، مولانا محمد عیسی ٰ الہ آبادی، مولانا عبدالحمید جنوبی وزیرستان، مولانا عبدالسلام نوشہرا، مولانا محمد سعید مدراس، مولانا وصی اللہ فتح پوری، مولانا عبدالرحمٰن کامل پوری، مولانا جلیل احمد علی گڑھ، مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوری، مولانا اسد اللہ رامپوری (ناظم اعلیٰ مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور)، مولانا فقیر محمد پشاور، مولانا محمد یوسف بنوریؒ (سنن امام ترمذیؒ معارف السنن کے مصنف)، مولانا محمد نعیم کابل اور مفتی عبدالکریم گمتھلہ ہیں۔

تصنیفی خدمات

المجددمولانا  اشرف علی تھانویؒ کثیرالتصانیف مصنف تھے، آپ کی تصنیفی خدمات تقاریر و مواعظ، بیانات،مقالات اور اعلی معیار کی کتابوں کی تعداد آٹھ سو سے ایک ہزار تک ہے، سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں، مولانا اشرف علی تھانویؒ قرآن کریم کے مترجم اور مفسر تھے، آپ قرآن کریم کے علوم و حکم کی شرح کی ، اور قرآن کریم کے شکوک و شبہات کو رفع کیا  اورسولات کا جواب دیا،المجدد مولانا اشرف علی تھانویؒ ایک محدث تھے، احادیث کے اسرارونکات کے ظاہرکرنے والےتھے، وہ فقیہ تھے، ہزاروں جدیدفقہی مسائل کو حل کیا ہے اور انتہائی احتیاطوں کے ساتھ تحقیقی فتوے دئے ہیں، وہ ایک چلتے پھرتے خطیب تھے، جن کی تقریر ۔۔۔۔۔۔سے لبریز تھی، وہ  بے مثال واعظ تھے، ان کے سینکڑوں وعظ چھَپ کر عام ہوچکے ہیں،
امام المجدد حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ صوفی تھے، انہوں نے تصوف کے اسراروغوامض کوواشگاف کیا ہے،  آپ کی ذات گرامی نے شریعت و طریقت کی ایک مدت کی جنگ کا خاتمہ کرکے دونوں کو ایک دوسرے سے ہم آغوش کیا ہے، آپ کی کتابوں میں مستشرقین اور جدت پسند وں کے ذریعہ کئے گئے اعتراضات کے جوابات موجود  ہیں،جدت پسندی کے اصولوں کی تردید اور تجزیہ  محض ایک  لفظی فعل نہ تھا بلکہ اس سے آپ کا مقصد ایک متقی اور باعمل مسلمان کی ذہنی سمجھ اور روحانی ترقی میں رُکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔
 آپ کی کتب عربی زبان میں یہ ہیں: سبق الغایات فی نسق الآیات، انوار الوجود، التجلی العظیم، حواشی تفسیر بیان القرآن، تصویر المقطعات، التلخیصات العشر، مأتہ دروس، الخطب الماثورہ، وجوہ المثانی، زیادات، جامع الآثار اور تائید الحقیقۃ۔  اور آپ کی فارسی کتابیں یہ ہیں: مثنوی زیر و بم، تعلیقات فارسی، عقائد بانئ کالج۔
آپ کی باقی تمام کتابیں اردو میں لکھی گئیں، جن میں سب سے مشہور بہشتی زیور ہے، جو مسلمانوں کے گھروں میں ان کی اسلامی زندگی گزارنے میں رہنمائی کے لئے موجود ہے، گرچہ امام المجدد حکیم الامت حضرت تھانویؒ ایک گراں قدر مصنف تھے مگر انہوں نے اپنی تصانیف سے کبھی ایک پیسہ کا فائدہ حاصل نہیں کیا۔

قرآن کریم: مجدد ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا خاص مشغلہ

کانپور میں درس و تدریس کےزمانے میں مجدد الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی بابت منقول ہے کہ آپؒ نے حضور اکرمﷺکے کزن اور صحابہ میں اولین مفسرِ قرآن حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کو خواب میں دیکھا جس میں ان کو ہدایت دی گئی تھی کہ تفسیر قرآن کریم پر خاص توجہ دیں ۔ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں: حضرت تھانویؒ نہ یہ کہ قرآن کریم کے الفاظ کے حافظ تھے بلکہ لفظ و معنیٰ دونوں حیثیتوں سے وہ حافظ تھے، وہ مزید کہتے ہیں کہ: آپؒ قرآن کریم کے بہت جید قاری تھے اور فنون تجوید و قرأت کے بڑے ماہرتھے،  اور آپ کی قرأت کی خصوصیت یہ تھی کہ ہر لفظ صحیح مخرج سے اداہوتا تھا، نہ تو لہجہ  میں کوئی بناوٹ تھی، اور نہ تحسین آواز کے لئے بتکلف اتار چڑھاؤ ہوتاتھا، بلکہ بلاتکلف فطری آواز میں تلاوت فرماتے تھے،جو تاثیر میں ڈوبی ہوتی تھی اوربہت پسند کی جاتی تھی۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ قرآن کریم کی مختلف  قرأتوں میں بھی ماہر تھے، انہوں نے مختلف قرأتوں کی مشہور روایات کواپنی کتاب' وجوہ المثانی' میں اور غیر مشہور روایتوں کو اپنی کتاب' زیادات علی کتب الروایات' میں جمع فرمادیا ہے، تجوید و قرأت قرآن کریم پر حضرت تھانویؒ نے یہ کتابیں بھی تصنیف فرمائیں: جمال القرآن، تجوید القرآن، رفع الخلاف فی حکم الاوقاف، تنشیط الطبع فی اجراء السبع، یادگار حق قرآن، متشابہات القرآن للتراویح اور آداب القرآن۔
حضرت تھانویؒ کی علوم قرآن میں گیرائی و گہرائی کا عکس ان کے قرآن کریم کے اردو ترجمہ میں صاف  طور پرعیاں ہے، ان کی  بارہ جلدوں میں تفسیر بیان القرآن کی قدر وقیمت کا اندازہ وہی لگا سکتا ہےجس نے بیسیوں کتبِ تفسیر  کا مطالعہ کیا ہو۔ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں کہ آپ کی تفسیر میں سب سے زیادہ علامہ آلوسی البغدادی کی تفسیر روح المعانی پر اعتماد فرمایا گیاہے، اور چونکہ یہ تیرہویں صدی کے وسط میں لکھی گئی ہے  اس لئے تمام قدماء کی تصانیف کا خلاصہ ہے، 
جصاص اور دیگر علماء کی طرح امام المجدد مولانا اشرف علی تھانویؒ نے بھی فقہ حنفی کی تائید میں قرآن کریم سے دلائل مستنبط کرنا چاہا  جس کا نام 'دلائل القرآن علی مذہب النعمان' ہونا تھا، مگر زندگی کے آخری ایام میں علالت طبع کے باعث یہ کام ان سے  انجام نہ پاسکا۔ حضر ت تھانویؒ کا یہ علمی کام آٓپ کے تین بڑے تلامذہ نے پورا کیا جنہوں نے آپ کی دلائل عقلیہ اور قرآن کریم سے ان کے استنباط کو قلم بند کیا ۔قرآنی فقہ پر عربی میں تصنیف بنام 'احکام القرآن للتھانوی' پانچ جلدوں میں دستیاب ہے اور مفتی محمد شفیع ؒ، مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ، اور مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ کی مشترکہ تصنیف ہے۔
مولانا عبد الباری ندویؒ فرماتے ہیں کہ: حضرت تھانویؒ جب کسی حنفی مسئلہ کی صحت پر قرآن کریم سے استدلال کرتے تھے تو اچنبھا ہوتا تھا کہ یہ مسئلہ اس میں موجود تھا لیکن ہمارے علم کی یہاں تک رسائی نہ ہوسکی تھی، وہ اس طرح وضاحت کرتے تھے کہ شکوک و شبہات کےبادل چھٹ جاتے اور ہم علم کی روشن کرنوں سے مکمل مستفیض ہوتے تھے۔   

مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانویؒ داعی الی اللہ کی حیثیت سے

اسلام کی شہرت اور لوگوں کو اللہ کی دعوت  دینا حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی زندگی کا ایک اہم جزو تھا، پہلے ہی سے اپنے تقریری پروگراموں کو اچھی طرح منظم فرمالیتے تھے، ہزاروں لوگ ان تقریروں میں شرکت کرتے جبکہ یہ تقریریں دودو تین تین گھنٹے اور کبھی کبھی پانچ پانچ گھنٹے بھی چلتی تھیں۔ امام المجدد حضرت تھانویؒ نے علاقۂ میوات کا بھی دورہ کیا، جہاں کے مسلمان کفر کے دہانے پر تھے، آپ نے پہلی بار یہاں کا سفر ۱۹۲۲ میں کیا تھا جب آپ الوار تشریف لے گئے تھے۔ حضرت تھانویؒ نے گجنیر کانپور یوپی کا بھی دورہ کیا جب علاقہ میں آریہ سماج نے مسلمانوں میں ہندومذہب کی تبلیغ شروع کردی، انتہائی شفقت و حکمت سے آپ نے وہاں کے
تمام مسلمانوں سے یہ عہد کرایا کہ وہ مذہب اسلام سے کبھی بھی منحرف نہ ہوں گے، ارتداد کی وسعت کو روکنے کے لئے آپ نے ایک مضمون 'الانسداد لفتنۃ الارتداد' تحریر فرمایا۔
ہر سچا مسلمان دین کے نام پر کئے جانے والے غیر دینی اعمال سے اجتناب کرتا ہے ۔ الامام المجدد مولانا اشرف علی تھانویؒ  نے اپنی تقریروں اور تحریروں سے رسوم و بدعات اور مفاسد کے ہر روڑے اور پتھر کو ہٹاکر قرآن و حدیث کی روشنی میں  اسلام کی صحیح شبیہ پیش کی، الامام المجدد حضرت تھانویؒ ان مسلمانوں کے متعلق بہت پریشان رہتےتھے  جو نادانی میں دین کے نام پر بہت سے غیر ضروری اعمال نیک کام سمجھ کرکرررہےتھے۔ چنانچہ آپ نے اس موضوع پر بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ آپ نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں قبر پرستی ، غیر اللہ سے مدد طلبی، آپ ﷺ کے اور صلحاء کے  حاضر و ناظر ہونے کا یقین جیسےبداعمالیوں کو واضح کیا، دوسری تصنیف بنام اغلاط العوام ہے  جس میں آپ نے تمام غیر اسلامی رسوم و بدعات کو جو لوگوں میں عام تھیں ختم کرنے کی کی مخلصانہ کوشش کی ، عقائد، عبادات اور معاملات میں جو بگاڑ پیدا ہوگیا تھا اس کی مذمت کی، حضرت تھانویؒ کی حکیمانہ سوچ کیوجہ سے تمام دینی احکامات کو بغیر افراط و تفریط کے ان کے ان کے مناسب مواقع نصیب ہوئے۔

تواضع اور سادگی

مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرمایاکرتے تھے کہ:میں اپنے آپ کو اس وقت کے  ہرمسلمان سے کم تر سمجھتا ہوں اورمستقبل کے لحاظ سے ہرغیر مسلم سےامکاناً  کمتر تصور کرتا ہوں،ان کا مطلب تھا کہ ابھی تو ہر مسلمان سے کم تر ہوں اور بعد میں غیر مسلموں سے بھی کم تر ہوں کیونکہ ہوسکتا ہے غیر مسلم اسلام قبول کر لے اور مجھ سے آگے چلاجائے، امام المجدد حضرت تھانویؒ دوسروں کی اصلاح سے زیادہ اپنی اصلاح پر توجہ دیتے تھے، ایک بار جب آپ کو کئی جگہوں پر تقریرکرنی تھی تو آپ نے فرمایا: جب کبھی مجھے اپنی اصلاح کی ضرورت پڑتی ہے تو میں اپنی اسی کوتاہی پر تقریر کرتاہوں ، یہ طریقہ بہت فائدہ مندہے، میری تقریر بعنوان 'غضب' اسی کی نظیر ہے، ایک بار حمدالہی کے بعد حضرت حکیم الامتؒ نے فرمایا کہ میں اپنے محاسبہ سے کبھی بے خبر نہیں رہتا ہوں،جب کبھی میں اپنے مسترشد کو نصیحت کرتاہوں تو اپنی ذات پر بھی نظر کرتاہوں  اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے حساب سے محفوظ فرمالے۔ 

حکیم الامت اور سیاست

مفتی تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ سیاسی آدمی نہ تھے، اور نہ ہی سیاست سے آپ کو کوئی دلچسپی تھی۔ لیکن اسلام ایک طریق حیات ہے جس میں تمام انسانی اعمال شامل ہیں اور جو زندگی کے ہر شعبہ میں  واضح اور کامل رہنمائی کرتاہے ۔ اسی وجہ سے امام المجدد حضرت تھانویؒ نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں مناسب موقعوں پر سیاست پر تبصرے کئےہیں اور اس میدان میں کارآمد باتوں کو واضح  فرمایاہے، جنگ جمہوریہ کے دوران بہت سے جدت پسند مسلمانوں نے اسلام کو حکومت اور سیاست کی ایک شاخ قرار دیا، اما م المجدد حضرت تھانویؒ نے صرف قرآنی آیات سے اس بات کو ثابت کیا کہ سیاسی قانون  اسلام کو ہماری زندگی میں ڈھالنے کا ایک ذریعہ ہے نہ کہ بذات خود مقصدِ حیات ۔تمام جدیدسیاسی قواعد و اصول جو قرآن و حدیث کے متصادم ہوں ترک کر دینے چاہئیں اور  قرآن و حدیث سے ہم آہنگ صاف ستھرے سیاسی افکار سے مسلمانوں کواپنی حکومت قائم کرنے میں  رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ (ملاحظہ ہو حکیم الامت کے سیاسی افکار)

ایک عظیم شخصیت کی رحلت

امام المجد د مولانا اشرف علی تھانویؒ  اصلاح امت  کے لئے  بہت کوشاں رہے اورتلامذہ کی  ایک بڑی تعدادکی تربیت فرمائی  جو برصغیر میں ہرطرف پھیلے ہوئے ہیں، اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی مساعی کی بدولت بہت سے مسلمانوں کو اسلام کی صحیح تعلیم کی طرف رہنمائی ملی، اسلام کا یہ عظیم فرزنداپنے وطن تھانہ بھون میں ۲/رجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۴/جولائی ۱۹۴۳ء میں اس جہاں فانی کو خیرباد کہا،  نماز جنازہ آپ کے بھانجہ محدث کبیر مولانا ظفر احمد عثمانی ؒنے پڑھائی اور پھر عشق بازاں
قبرستان میں تدفین ہوئی۔ حکیم الامت امام المجدد حضرت تھانویؒ  اپنے روحانی ، عقلی،  حکیمانہ  سوچ اور اصلاحی تعلیمات  کے لئے ہمیشہ یاد کئے جائیں گے، کیونکہ آج بھی یہ تعلیمات قرآن و حدیث کے سمجھنے میں مسلمانوں کی معاون و مددگار ہیں، بر صغیر ہند میں قرآن و سنت کے مطابق مسلمانوں کی شخصیتوں کو سنوارنے کے لئے آپ کی اصلاحی تحریک  ، رسوم و بدعات کے خلاف محاذ آرائی اور اپنی بے مثال تحریری صلاحیتوں اور قرآن و حدیث  کے علوم میں مہارت کیوجہ سے بر صغیر ہند میں صالح مجددین میں آپ کو چوتھا مقام حاصل ہے، آپ کی مقدس روح پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، اللہ آپ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔(آمین)