128 views
عید گاہ اور قبرستان میں وقتیہ نماز پڑھنا کیسا ہے؟
(۱۳)سوال:(۱) عیدگاہ میں فرض نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
(۲) قبرستان میں جہاں پر قبروں کے نشانات بھی نہیں ہیں وہاں پر نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟
(۳) جس مسلمان نے کبھی نماز نہیں پڑھی اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: سمیع اللہ، لکھیم پور کھیری
asked Jan 3 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: (۱) عیدگاہ کی مسجد میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے اور احکام کے لحاظ سے عیدگاہ بھی مسجد کے حکم میں ہے۔(۱)
(۲) نماز کی جگہ اور سامنے اگر قبروں کے نشانات نہیں ہیں جگہ خالی اور برابر ہے تو ایسی جگہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۲)
(۳) جس شخص نے اپنی زندگی میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن وہ خدا اور رسول پر ایمان رکھتا ہے تو وہ شخص بھی مسلمان ہے اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔(۱)
(۱)  وفي الخلاصۃ والخانیۃ السنۃ أن یخرج الإمام إلی الجبانۃ، ویستخلف غیرہ لیصلي في المصر بالضعفاء بناء علی أن صلاۃ العیدین في موضعین جائزۃ بالاتفاق، وإن لم یستخلف فلہ ذلک۔ اہـ نوح۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب العیدین‘‘: ج۳، ص: ۴۹)
الخروج إلی الجبانۃ في صلاۃ العید سنۃ وإن کان یسعہم المسجد الجامع، علی ہذا عامۃ المشایخ وہو الصحیح، ہکذا في المضمرات۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)
لا تکرہ في مسجد أعد لہا وکذا في مدرسۃ ومصلی عید لأنہ لیس لہا حکم المسجد في الأصح إلا في جواز الاقتداء وإن لم تتصل الصفوف۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ص: ۵۹۵)
و أما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عید فہو مسجد في حق جواز الاقتداء لا في حق غیرہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب البدعۃ، مطلب: البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
واختلفوا أیضا في مصلی العیدین أنہ ہل ہو مسجد والصحیح أنہ مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن لم تتصل الصفوف؛ لأنہ أعد للصلاۃ حقیقۃ لا في حرمۃ دخول الجنب والحائض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل السلطان أحق بصلاتہ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۸)
(۲)   ولا بأس بالصلاۃ فیہا إذا کان فیہا موضع أعد للصلاۃ ولیس فیہ قبر ولا نجاسۃ کما في الخانیۃ ولا قبلتہ إلی قبر حلیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب تکرہ الصلاۃ في الکنیسۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۱)
ویکرہ أن تکون قبلۃ المسجد إلی المخرج أو إلی القبر لأن فیہ ترک تعظیم المسجد، وفي الخلاصۃ ہذا إذا لم یکن بین یدي المصلي وبین ہذا الموضع حائل کالحائط وإن کان حائطاً لا یکرہ۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبي الکبیري، ’’کتاب الصلاۃ، مکروہات الصلاۃ‘‘: ص: ۳۵۳)
(۱) (وہي فرض علی کل مسلم مات خلا) أربعۃ: (بغاۃ، وقطاع طریق) … (وکذا) أہل عصبۃ و (مکابر في مصر لیلا بسلاح وخناق) خنق غیر مرۃ فحکمہم کالبغاۃ۔ (من قتل نفسہ) ولو (عمدا یغسل ویصلی علیہ) بہ یفتی وإن کان أعظم وزرا من قاتل غیرہ … (لا) یصلی علی (قاتل أحد أبویہ) إہانۃ لہٗ، وألحقہ في النہر بالبغاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنازۃ، مطلب ہل یسقط فرض الکفایۃ بفعل الصبي‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۷ تا ۱۰۹)
وشرطہا إسلام  المیت وطہارتہ ما دام الغسل ممکنا وإن لم یمکن بأن دفن قبل الغسل ولم یمکن إخراجہ إلا بالنبش تجوز الصلاۃ علی قبرہ للضرورۃ ولو صلی علیہ قبل الغسل ثم دفن تعاد الصلاۃ لفساد الأولی ہکذا في التبیین وطہارۃ مکان المیت لیست بشرط ہکذا في المضمرات ویصلی علی کل مسلم مات بعد الولادۃ صغیرا کان أو کبیرا ذکرا کان أو أنثی حرا کان أو عبدا إلا البغاۃ وقطاع الطریق ومن بمثل حالہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۴)

فتاوى دار العلوم وقف ج 4 ص:43 و45

answered Jan 4 by Darul Ifta
...