23 views
اذان کے بعد لوگوں کو نماز کی ترغیب کرنا:
(۱۰۱)سوال:زید جس وقت اذان ہونے کے بعد نماز کے لیے اپنے مقام سے مسجد میں آتا ہے وہ راستہ میں ملنے والے تمام مسلمانوں کو خواہ وہ نمازی ہوں یا بے نمازی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنے کی تلقین کرتا ہے اور اس عمل کو موجب ثواب سمجھتا ہے اس کے برخلاف عمر کہتا ہے کہ میں نے بہت سے نیک لوگوں سے سنا ہے کہ اذان ہونے کے بعد کسی بھی شخص کو نماز کے لیے آنے کی دعوت  دینا ٹھیک نہیں ہے، اذان ہی سب لوگوں کے لیے نماز میں آنے کی دعوت ہے کیا بے نمازیوں کو اذان کے بعد نماز کی دعوت دینا جائز ہے؟ اور نماز پڑھنے والوں کے بارے میں شریعت میں کیا حکم ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد اکرم صاحب، کیرانہ
asked Jan 12 in نماز / جمعہ و عیدین by azhad1

1 Answer

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں دعوت نماز کے لیے اذان کافی ہے۔ پھر سے لوگوں کو دعوت کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن اگر کیف مااتفق کبھی کبھی کسی آدمی کو ترغیباً نماز کے لیے کہہ دیا جائے تاکہ اس کی جماعت ترک نہ ہو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ البتہ روزانہ اس کے التزام سے پرہیز کیا جائے۔ تاہم بعض علماء نے غافلوں کی تنبیہ کے لیے اجازت دی ہے۔(۱)
’’واستحسن المتأخرون التثویب وہو العود إلی الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ کل قوم‘‘(۲)

(۱) الشرنبلالي، قال الزہري: وزاد بلال في نداء صلاۃ الفجر الصلاۃ خیر من النوم، قأقرہا نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، وقال عمر: أما إني قد رأیت مثل الذي رأي، ولکنہ سبقني۔ (اخرجہ مسند أبي یعلی، مسند عبداللّٰہ بن عمر:ج۹، ص: ۳۷۹)
أخبرنا مالک، أخبرنا ابن شہاب، عن عطاء بن یزید اللیثي، عن أبي سعید الخدري، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء، فقولوا مثل ما یقول المؤذن۔ (ص: ۵۵) قال مالک: بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ جاء ہ المؤذن یؤذنہ لصلاۃ الصبح، فوجدہ نائماً فقال المؤذن: الصلاۃ خیر من النوم، فأمرہ عمر أن یجعلہا في نداء الصبح۔ (أخرجہ مالک في المؤطا، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان والتثویب‘‘: ج ۱، ص: ۵۴؛ ومسند ابن أبي شیبۃ، ’’من کان یقول في الأذان الصلاۃ خیر من النوم‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۹)
محمد، قال: أخبرنا أبو حنیفۃ، عن حماد، عن إبراہیم، قال: سألتہ عن التثویب، قال: ہو مما أحدثہ الناس، وہو حسن مما أحدثوا وذکر أن تثویبہم کان حین یفرغ المؤذن من أذانہ: الصلاۃ خیر من النوم قال محمد: وبہ نأخذ، وہو قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔ (محمد بن الحسن، الآثار، کتاب الصلاۃ،’’باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱)
(۲) نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۶۲؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص229

answered Jan 12 by Darul Ifta
...