الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ حنفی مسلک میں مقتدی امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتا ہے، اس لیے کہ امام کا قرأت کرنا ہی مقتدی کے لیے کافی ہے، جیسا کہ ابن ماجہ شریف میں ایک حدیث ہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کا قرأت کرنا مقتدی کا قرأت کرنا ہے۔
’’من کان لہ إمام فقراء ۃ الإمام لہ قراء ۃ‘‘(۱)
مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی اقتداء میں جو مقتدی ہیں وہ قرأت نہیں کرے گا اور لاحق بھی تقدیراً امام کے پیچھے ہی سمجھا جاتا ہے اور وہ امام کی اقتدا کر رہا ہوتا ہے، اس لیے وہ لاحق بھی قرأت نہیں کرے گا؛ بلکہ سکوت اختیار کئے رہے گا۔
نیز لاحق کی نماز کا شرعی حکم کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ: اگر جماعت کی نماز باقی ہو تو لاحق اس جماعت میں شریک ہو جا ئے ورنہ باقی چھوٹی ہوئی نماز تنہا پڑھ لے۔
لاحق اپنی چھوٹی ہوئی رکعتوں میں بھی مقتدی سمجھا جائے گا یعنی جیسے مقتدی قرأت نہیں کرتا ویسے ہی لاحق بھی قرأت نہ کرے گا، بلکہ سکوت کیے ہوئے کھڑا رہے گا۔ اور جیسے مقتدی کو اگر سہو ہو جائے تو سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہوتی ویسے ہی لاحق کو بھی ضرورت نہیں، جیسا کہ تبیین الحقائق میں ہے:
’’فصار اللاحق فیما یقضي کأنہ خلف الإمام تقدیراً۔ ولہذا لا یقرأ و لایلزمہ السجود بسہوہ الخ‘‘(۱)
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب: إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا‘‘: ص: ۶۱، رقم: ۸۵۰۔
(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۳(زکریا دیوبند)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص62