130 views
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته،
میرے والد ماجد کے انتقال کے دن ایک پرچی ملی جسپر والد نے ایک نقشہ بنایا ہوا تھا اور اپنی تدفین کی جگہ معین کی تھی، جوکہ شہر سےتقریبا 30 کیلومیٹر دور آبائ قبرستان میں ہے.

لیکن ہم لوگوں نے شہر میں ہی ہمارے ننہیالی قبرستان میں دفن کردیا، یہ سونچ کر کے اتنی دور کیوں لیکر جائیں  کے بعد میں زیارت کیلئے بھی مواقع کم ہونگے.

کیا اسطرح والد کی وصیت کا لحاظ نہ کرنا گناہ ہے، اور اگر ہے تو پھر اسکی تلافی کسطرح کی جائے.. جزاکم الله خیرا
asked Mar 8, 2021 in احکام میت / وراثت و وصیت by Mohammed

1 Answer

Ref. No. 1353/42-753

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کی  شہرسے باہر دوسرے قبرستان میں دفن کرنے کے وصیت  شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے ورثہ کا  ان کی اس وصیت  پرعمل  نہ کرنا جائز اور درست ہے۔ اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔

ولو أوصى بأن يحمل بعد موته إلى موضع كذا ويدفن هناك ويبنى هناك رباطا من ثلث ماله فمات ولم يحمل إلى ذلك الموضع قال أبو القاسم: وصيته بالرباط جائزة ووصيته بالحمل باطلة، ولو حمله الوصي يضمن ما أنفق في الحمل إذا حمله الوصي بغير إذن الورثة، وإن حمل بإذن الورثة لا يضمن (الفتاوی الھندیۃ ، الباب الثانی فی بیان الالفاظ التی تکون 6/95)

(قوله ولا بأس بنقله قبل دفنه) قيل مطلقا، وقيل إلى ما دون مدة السفر، وقيده محمد بقدر ميل أو ميلين لأن مقابر البلد ربما بلغت هذه المسافة فيكره فيما زاد. قال في النهر عن عقد الفرائد: وهو الظاهر اهـ وأما نقله بعد دفنه فلا مطلقا(درمختار، فروع فی الجنائز 2/239)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Mar 11, 2021 by Darul Ifta
...