115 views
ایک آدمی کے ذہن میں طلاق کے وساوس آ رہے تھے اس نے سوال لکھا کہ میرے دل میں بار یہ بارخیال آتا ہے کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں جبکہ ایسی بات نہیں ہے جب وہ یہ سوال لکھ رہا تھا کہ طلاق والے جملہ پر پھر دل میں غیر اختیاری وسوسہ آیا اور محسوس یہ ہوا کہ طلاق کی نیت ہوگئی ہے جبکہ ایسا حوش و حواس میں نہ تھا دل کو وہم ہو رہا تھا.
asked Jun 28, 2021 in طلاق و تفریق by حسان

1 Answer

Ref. No. 1481/42-948

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض طلاق کے وہم سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ غیراختیاری نیت کا بھی اعتبار نہیں ہے۔  وساوس کو زیادہ جگہ نہ دیں، ذہن کو دوسری چیزوں کی جانب منتقل کریں، اور "لاحول ولاقوۃ الا باللہ " کثرت سے پڑھیں۔

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: "ان اللہ تجاوزعن امتی ماوسوست بہ صدورہامالم تعمل بہ اوتتکلم متفق علیہ". قال الملاعلی قاری:  "الخواطران کانت تدعوالی الرذائل فہی وسوسۃ ۔۔۔۔ماوسوست بہ صدورہاای ماخطر فی قلوبہم من الخواطرالردیئۃ ۔۔۔مالم تعمل بہ ای مادام لم یتعلق بہ العمل ان کان فعلیا،اوتتکلم بہ ای مالم یتکلم بہ ان کان قولیا". (مرقاۃ المفاتیح: 1/238)
"ورکنہ(الطلاق ) لفظ مخصوص وفی الشامیۃ ھوماجعل دلالۃ علی معنی الطلاق من صریح اوکنایۃ ۔۔۔وارادالفظ ولوحکمالیدخل الکتابۃ المستبینۃ واشارۃ الاخرس الخ ۔۔واراد بہاالفظ اومایقوم مقامہ من الکتابۃ المستبینۃ اوالاشارۃ المفہومۃ ۔۔۔لان رکن الطلاق الفظ اومایقوم مقامہ".(شامی 3/247)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jul 7, 2021 by Darul Ifta
...