Ref. No. 1565/43-1086
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ مسئلہ دونوں صورتوں میں ہے کہ نماز ہوجاتی ہے، تاہم اگر نماز سے پہلے معلوم ہوجائے تومعفو عنہ مقدار نجاست کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے۔ اور اگر کسی کو خبر ہی نہیں ہوئی اور نماز کے بعد معلوم ہوا کہ اس قدر نجاست لگی تھی تو کراہت نہیں آئے گی۔ بہر حال نماز سے قبل شرائط نماز پر ایک بار توجہ کرلینی چاہئے تاکہ ایسی غلطی نہ ہو۔
"قلت: فَإِن أصَاب يَده بَوْل أَو دم أَو عذرة أَو خمر هَل ينْقض ذَلِك وضوءه؟ قَالَ: لَا وَلَكِن يغسل ذَلِك الْمَكَان الَّذِي أَصَابَهُ. قلت: فَإِن صلى بِهِ وَلم يغسلهُ؟ قَالَ: إِن كَانَ أَكثر من قدر الدِّرْهَم غسله وَأعَاد الصَّلَاة وَإِن كَانَ قدر الدِّرْهَم أَو أقل من قدر الدِّرْهَم لم يعد الصَّلَاة". (المبسوط للسرخسی 1/60)
(وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطلُ فیفرض والصلاة مکروہة مع ما لا یمنع، حتی قیل لو علم قلیل النجاسة علیہ فی الصلاة یرفضہا ما لم یخف فوت الوقت أو الجماعة(شامی، زکریا 1/520)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند