253 views
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
*ایک شخص کی دو بیویاں ہیں اور دونوں سے ہی اولاد ہے۔۔۔پہلی  بیوی کا بیٹا دوسری بیوی (اپنی سوتیلی ماں ) سے ناجائز اور حرام تعلقات(زنا ،شہوت کے ساتھ بوس و کنار وغیرہ جیسے افعال) قائم کرتا ہے۔۔*
کیا اب اس شخص پر دونوں بیویاں حرام ہوگئیں ہیں یا صرف دوسری بیوی حرام ہوئی ہے؟؟
کیا اب ان کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟؟
از روئے شریعت اس کا جواب عنائیت فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔۔۔
asked Sep 18, 2021 in عائلی مسائل by اللہ رکھا

1 Answer

Ref. No. 1610/43-1177

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوتیلی ماں حکما ماں کے درجہ میں ہوتی ہے،سوتیلی ماں  سے نکاح کرنا بنص قرآنی حرام ہے، اور اس سے زنا انتہائی قبیح عمل ہے،  اور چونکہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے اس لئے  بشرط صحت سوال صورتِ  مسئولہ میں  دوسری بیوی زانی کے والد (اپنےشوہر) پر حرام ہوگئی؛ اب اس سے دوبارہ کبھی بھی نکاح نہیں ہوسکتاہے۔البتہ  اس سے پہلی بیوی کے نکاح پر اثر نہیں پڑے گا وہ بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں رہے گی۔

{وَلَا تَنْكِحُوْا مَا نَكَحَ اٰبَاۗؤُكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَّمَقْتًا وَسَاۗءَ سَبِيْلًا}[النساء:22{  "قوله: (وامرأة أبيه وابنه وإن بعدا) أما حليلة الأب فبقوله تعالى: { ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم من النساء } النساء 22 فتحرم بمجرد العقد عليها والآية المذكورة استدل بها المشايخ كصاحب النهاية وغيره على ثبوت حرمة المصاهرة بالزنا بناء على إرادة الوطء بالنكاح فإن أريد به حرمة امرأة الأب والجد ما يطابقها من إرادة الوطء قصر عن إفادة تمام الحكم المطلوب حيث قال: و لا بامرأة أبيه(البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 100)

قوله: وحرم أيضًا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبًا ورضاعًا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبًا و رضاعًا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها". (شامی، رد المحتار3/32)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Sep 26, 2021 by Darul Ifta
...