362 views
سجدہ سہو کا ایک تو معروف طریقہ ہے، کہ تشھد کے بعد دائیں جانب سلام پھیرکر دو سجدے کرے اور پھر تشھد پڑھے۔2 کیا ہم درود و دعا ماثورہ سب کچھ پڑھنے کے بعددونوں طرف سلام پھیرکر سجدہ سہو کریں اور پھر صرف تشھد پڑھ کر سلام سے نماز ختم کردیں تو کوئی حرج ہے؟
3. اسی طرح اگر ہم درود و دعاء ماثورہ کے بعد دونوں طرف سلام پھیرکر سجدہ سہو کریں اور پھر بیٹھ کر بلا سلام پھیرے نماز ختم کردیں تو کوئی خرابی آئے گی۔ ایسی صورت میں کسی کو معلوم نہیں ہوتا کہ میں نے سجدہ سہو کیا ہے یا سجدہ شکر ادا کیا ہے یا سجدہ تلاوت کیا ہے۔
کیا ان صورتوں میں سے کسی میں نماز کے اعادہ کی بھی ضرورت ہوگی؟ بینوا توجروا۔
اخلاق الرحمان پورنیہ
asked Jan 12, 2022 in نماز / جمعہ و عیدین by Rahimuddin

1 Answer

Ref. No. 1772/43-1507

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

احناف کے نزدیک سجدہ  سہوکی کیفیت یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھ کر ایک سلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور اس کے بعد تشہد ، دورد اور دعائے ماثورہ پڑھے پھر دونوں طرف سلام پھير کر نماز سے نکل جائے جیسا کہ آپ نے پہلی صورت ذکر کی ہے۔

(ويسجد له بعد السلام سجدتين ثم يتشهد ويسلم) قال - عليه الصلاة والسلام -: «لكل سهو سجدتان بعد السلام» . وروى عمران بن حصين وجماعة من الصحابة: «أنه - صلى الله عليه وسلم - سجد سجدتي السهو بعد السلام» ، ثم قيل يسلم تسليمتين، وقيل تسليمة واحدة وهو الأحسن، ثم يكبر ويخر ساجدا ويسبح، ثم يرفع رأسه، ويفعل ذلك ثانيا، ثم يتشهد ويأتي بالدعاء ; لأن موضع الدعاء آخر الصلاة، وهذا آخرها.(الاختیار لتعلیل المختار،1/73)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر (بدائع الصنائع:١٧٣/١
)

امام طحاوی کی رائے ہے کہ دونوں قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ، علامہ ابن الہمام نے اسی کو احوط قرار دیا ہے اور ایک رائے یہ بھی ہے کہ حضرات شیخین کے نزدیک سجدہ سہو کے ہی قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور امام محمد کے مطابق قعدہ اخیرہ کے تشہد میں درود اور دعائے ماثورہ پڑھے ۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں صورتوں کی گنجائش ہے ۔ حضرات فقہائے احناف نے سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ اس لیے بھی پڑھنے سے منع کیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ یہ قعدہ اخیرہ نہیں؛ بلکہ سہو کا قعدہ ہے اور مسبوق اس میں سلام پھیرنے سے رک سکے اس لیے جماعت کی نماز میں تو امام کو سہو کے قعدہ میں درود اور دعائے ماثورہ نہیں پڑھنا چاہیے ۔ہاں انفرادی نماز میں اگر سہو کے قعدہ میں تشہد کے ساتھ درود  اور دعائے ماثورہ پڑھ لے اور قعدہ اخیرہ میں صرف تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے تو اس کی گنجائش ہے۔ نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہوگی اس صورت میں دونوں طرف سلام پھیر کر بھی سجدہ سہو کیا جاسکتاہے اس لیے کہ احناف کے یہاں دونوں سلام کا بھی قول ہے اور روایت سے بھي دونوں سلام ثابت ہے۔

ويأتي بالصلاة على النبي - عليه الصلاة والسلام -، والدعاء في قعدة السهو هو الصحيح لأن الدعاء موضعه آخر الصلاة.-(قوله هو الصحيح) احتراز عما قال الطحاوي في القعدتين لأن كلا منهما آخر.وقيل قبل السجود عندهما وعند محمد بعده(فتح القدیر1/501)
وإذا عرف أن محله المسنون بعد السلام فإذا فرغ من التشهد الثاني يسلم ثم يكبر ويعود إلى سجود السهو، ثم يرفع رأسه مكبرا، ثم يتشهد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - ويأتي بالدعوات، وهو اختيار الكرخي واختيار عامة مشايخنا بما وراء النهر، وذكر الطحاوي أنه يأتي بالدعاء قبل السلام وبعده وهو اختيار بعض مشايخنا، والأول أصح؛ لأن الدعاء إنما شرع بعد الفراغ من الأفعال والأذكار الموضوعة في الصلاة(بدائع الصنائع،1/173)

جہاں تک تیسری صورت کا تعلق ہے کہ سہو کے قعدہ میں ہی تشہد اور دورد اور دعائے ماثورہ پڑھ کرسلام پھیرے پھر دو سجدہ کرے اور بلا سلام کے نماز سے نکل جائے تو یہ صورت درست نہیں ہے اس سے سجدہ سہو ادا نہ ہو گا او رسجدہ سہو ادا نہ ہونے کی وجہ سے نماز واجب الاعادہ ہوگی ۔اس لیے کہ سجدہ سہو کے لیے تشہد اور سلام ضروری ہے۔

عن عبد اللہ ابن مسعود رضي اللہ عنہ: “إذا قام أحدکم في قعود، أو قعد في قیام، أو سلم في الرکعتین، فلیتم ثم لیسلم ثم یجسد سجدتین یتشہد فیہما ویسلم“ أخرجہ سحنون في المدونة الکبری لہ (۱/۱۲۸)(يجب(سجدتان. و) يجب أيضا (تشهد وسلام) لأن سجود السهو يرفع التشهد(رد المحتار،2/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jan 19, 2022 by Darul Ifta
...