109 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

فقہ حنفی کے مطابق فلکی حسابات کی بنیاد پررویتِ ہلال کی  شھادت کی نفی کرنا جائز ہے ؟
الف – اگر فلکی حسابات کے ذریعے معلوم ہو کہ ابھی چاند کی ولادت ہی نہیں ہوئی ہے اور کوئی شخص  یا جمِ غفیر رویت ہلال کی شہادت کر دے تو کیا اس بنا پر شہادت کو رد کرنا جائز ہے ؟
کیا ولادتِ قمر کے فلکی حسابات قطعی ہیں ؟

ب – اگر ماہرین فلکیات یہ کہے کہ ولادتِ قمر کے اتنے گھنٹوں تک چاند قابلِ رویت نہیں ہوتااور ان کے ذکر کردہ گھنٹوں سے پہلے کوئی شخص یا جمِ غفیر  رویت ہلال کی شہادت کر دے تو کیا اس بنا پر شہادت کو رد کرنا جائز ہے ؟
ولادتِ قمر  کے بعد رویت ممکن  نہ ہونے کا پوری دنیا کے لیے کوئی قطعی فلکی قاعدہ ہے ؟
 اور یہ فلکی حسابات کیا قطعی ہیں یا ظنی ؟
asked Jun 1, 2022 in روزہ و رمضان by shaukat-ali

1 Answer

Ref. No. 1858/43-1753

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فلکی حسابات یقینی نہیں بلکہ ظنی ہیں اس لئے فلکی حساب کی بنیاد پر شہادت شرعی کا انکار کرنا درست نہیں ہے۔ جم غفیر کی شہادت شرعی شہادت ہے، اس لئے اس کو رد کرنے کی کوئی قوی وجہ نہیں ہے۔ ماہرین فلکیات کا حساب ایک اندازہ ہی ہے اس کو قطعی اور یقینی نہیں کہاجاسکتاہے، ، اس لئے ایک تخمینی حساب کی وجہ سے جم غفیر کی شہادت کو رد نہیں کیاجاسکتاہے۔

فلکی حسابات رؤیت ہلال کے ثبوت کے لئے معاون ہوسکتے ہیں مقابل نہیں ہوسکتے ہیں۔ قاضی کے فیصلہ کے لئے کسی چیز کا قطعی طور پر وجود ضروری نہیں ہے بلکہ نصاب شہادت کا کامل ہونا ضروری ہے۔ اور نصاب شہادت کی تکمیل پر قاضی اس کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہے؛ اس جزء کو خاص طور پر سمجھ لینا چاہئے۔

"ان علماء الهيئة مجمعون علي انّ المقادير المفروضة في اواخر اعمال رؤية الهلال هي ابعاد لم يوقف عليها الا بالتجربة وللمناظر احوال هندسية يتفاوت لإجلها المحسوس بالبصر في العظم والصغر وفي ما اذا تأمّلها متأمّل منصف لم يستطع بتّ الحُكم على وجوب رؤية الهلال  اَو امتناعها."  (آثار الباقیة عن القرون الخالية، ص: 198، طبع:1923، ليزك، بحواله جواهر الفقه)

 

"اذا ثبت الصوم او الفطر عند حاکم  تحت قواعد الشرع بفتوی العلماء او عند واحد او جماعة من العلماء الثقات ولاّھم رئیس المملکة أمر رؤیة الھلال،وحکموا بالصوم او الفطر ونشروا حکمھم ھذا فی رادیو، یلزم علی من سمعھا من المسلمین العمل به فی حدود ولایتھم، واما فیما وراء حدود ولایتھم فلا بد من الثبوت عند حاکم تلك الولایة بشھادۃ شاھدین علی الرؤیة او علی الشھادۃ او علی حکم الحاکم او جاء الخبر مستفیضا؛ لان حکم الحاکم نافذ فی ولایته دون ما وراءھا."(زبدۃ المقال فی رؤیة الھلال،بحواله خیر الفتاوی، 4/118، ط؛ مکتبة الخیر ملتان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jun 27, 2022 by Darul Ifta
...