68 views
بسم اللّٰہ الرحمن الرحيم

السلام علیکم ورحمة الله و بركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بار میں
میرا نام محمد یونس ہے۔ میرے تین لڑکے اور چار لڑکیاں اور وہ سب
شادی شدہ ھیں۔ میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا ہے
 اور ابھی چند روز قبل میرے بیٹوں میں
سے بھی ایک بیٹا کا انتقال ہو گیا ہے -
 جسکے وارثین میں بیوی اور
(مذکر مونث) بچیں ہیں اس حادثے کے بعد میں بہت زیادہ پریشان رہا ہوں
کیونکہ اسکی بیوی بچوں کا کوئی ذریعہ آمد نہیں ہے
مرحوم کا بیٹا جو میرا پوتا ابھی بہت چھوٹا ہے
اِس وجہ سے میں یہ چاھتا ہوں کہ شریعت کے اعتبار سے سب کو ان کا حق
اپنی زندگی میں دیگر فارغ ہو جاؤں ۔ اس لئےآپ مودبانہ گزارش ہے کہ سب
کے حقوق کی قرآن و حدیث کی روشنی میں تفصیل بیان فرمائے تاکے میں اپنی
زندگی میں اس فریضہ کی ادائیگی سے فارغ ہو جاؤں ۔ والسلام
( المستفتی) حاجی محمد یونس ( مالویہ نگر دھلی)
asked Sep 24, 2022 in احکام میت / وراثت و وصیت by MOHD SUHAIL

1 Answer

Ref. No. 2068/44-2067

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان اپنی جائداد تقسیم کرنا ہبہ کہلاتاہے اور  اس کا شرعی  طریقہ یہ ہے کہ   اپنی جائیداد میں سے  اپنے  لیے   جتنا چاہے رکھ لے؛ تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئے اور بقیہ مال اپنی  تمام  اولاد میں برابر تقسیم کرے، یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو دے،  نہ کسی کو محروم کرے اور نہ ہی بلاوجہ کمی بیشی کرے۔ اور جو بیٹا مرحوم ہوگیا اس کے حصہ کے بقدر اس کی اولاد کو دینا بھی جائز ہے، اور اگر زیادہ ضرورتمند ہوں تو زیادہ بھی دے سکتاہے۔

' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» و في رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»'۔ (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل". (رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Oct 23, 2022 by Darul Ifta
...