763 views
السلام علیکم،
والد صاحب مرحوم کی پہلی بیوی سے ایک لڑکی ہے۔ پہلی بیوی سے طلاق ہو جانے پر والد نے دوسری شادی کی ۔ دوسری بیوی سے ہم تین بھائی اور ایک بہن ہے۔
والد کے انتقال کے بعد میراث میں آبائی زمین بچی ہے جس کی اندازاً قیمت تقریباً 80 لاکھ روپیے ہے ۔   ہماری والدہ ابھی حیات ہے۔
1۔ لہٰذا  صورت مسؤلہ میں میراث کی تقسیم کس طرح کی جائے گی۔
2۔والد  مرحوم نے انتقال سے تقریباً دس سال قبل  ایک مکان 5 لاکھ روپیہ میں فروخت کر دیا تھا  اگر ہماری سوتیلی بہن اس میں سے بھی حصہ طلب کرے تو یہ رقم کہاں سے ادا کی جائے گی ؟
3۔ اگر ہم  تینوں بھائی قطع تعلق سے بچنے کے لیے   ہماری دونوں بہنوں کو  5 لاکھ روپئے سے حصہ دیتے ہیں تو  کتنی رقم دینی ہوگی ؟
4۔ گورنمنٹ کی جانب سے ہمارے والد صاحب کی پینشن والدہ کے نام جاری ہے کیا اس میں کسی اور کا کوئی حق ہے ؟
asked Jan 5, 2023 in احکام میت / وراثت و وصیت by saifu

1 Answer

Ref. No. 2189/44-2332

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ ان کی ملکیت میں تھا، اس پورے جائداد کو اس طرح تقسیم کریں گے کہ آپ کی سوتیلی بہن کو مرحوم کی بیٹی کی حیثیت سے حصہ ملے گا، لہذا  مرحوم کی کل جائداد کو 64 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو 8(آٹھ) حصے، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک  بیٹے کو 14 (چودہ) حصے، اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو 7 (سات) حصے ملیں گے۔  والد صاحب نے جو کچھ اپنی زندگی میں بیچ دیا یا کسی کو دے کر مالک بنادیا اس کا اب کوئی حساب نہیں ہوگا، اس لئے انتقال سے دس سال قبل جو زمین بیچی تھی ان پیسوں میں سے ان کے انتقال کے وقت جو بچ گیا تھا  صرف اس میں میراث تقسیم ہوگی۔ سرکار کی جانب سے آپ کی والدہ کو جو پینشن کی رقم ملتی ہے اس کی مالک آپ کی والدہ ہی ہیں، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رقم سرکار خاص ان کو ہی دے رہی ہےاور یہ سرکار کی جانب سے ایک عطیہ ہے وہ جس کو چاہے دے سکتی ہے۔

 امداد الفتاوی میں ہے: "چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چا ہے تقسیم کردے۔"امداد الفتاویٰ ، کتاب الفرائض جلد ۴ ص:۳۴۳)

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم." (بدائع الصنائع، کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود جلد ۷ ص : ۵۷ ط : دار الکتب العلمیة)

"لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص." (فتاوی شامی، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد ۵ ص : ۵۱ ط : دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 22, 2023 by Darul Ifta
...