42 views
مزاروں پر بکرا ذبح کرنا:
(۳۵)سوال:ہمارے امام صاحب کہتے ہیں کہ مزاروں پر جانا منع ہے اگر کسی نے یہ کہا کہ میں مزار پر جا کر بکرے کی نیاز کروں گااور بکرا ’’بسم اللّٰہ، اللّٰہ أکبر‘‘ کہہ کر ذبح کروں گا۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ یہ جانور بھی حرام ہے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مردہ ولی ہو یا بزرگ کوئی بھی وہ مردہ ہی ہے زندہ نہیں ہے امام صاحب درست کہتے ہے یا نہیں؟ شرعی مسئلہ کیا ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: شفیق احمد، ہرپالی
asked May 24, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزارات پر جانا، اور آیات قرآنی پڑھ کر میت کو ثواب پہنچانا، اور دعائے مغفرت کرنا، بلا شبہ جائز ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جنت البقیع میں تشریف لے جاتے، اور ایصال ثواب، دعاء مغفرت فرماتے تھے؛ البتہ مزارات پر جاکر خلاف شریعت امور کرنا اور رونا، یا صاحب مزار سے امداد طلب کرنا جائز نہیں ہے، مگر توسل کی اجازت ہے، اور حضرت ابوبکر وعمر اور دوسرے اکابر صحابہؓ سے بھی ثابت ہے کہ انہوں نے دعاء میں وسیلہ اختیار کیا جہاں تک نیاز کی بات ہے تو اس کا ثبوت نہیں ملتا ہے بلا شبہ یہ بدعت ہے، اور اگر مزار ہی پر جاکر ایصال ثواب کی نیت سے بکرا ذبح کرکے کھانا وغیرہ بناکر فقراء کو تقسیم کردیا جائے تو مباح ہے، ممنوع نہیں لیکن مزار ہی پر جاکر ایسا کرنے کو اگر ضروری سمجھا جائے گا تو بدعت میں شمار ہوگا، جو بکرا ذبح کیا جاتا ہے وہ اللہ ہی کے نام ذبح کرتا ہے، اور ایصال ثواب کے لئے ذبح کرتا ہے؛ اس لئے اس بکرے کے گوشت کو کھانا بھی جائز ہے مگر صرف غرباء کا حق ہے، جو صاحب نصاب ہو ان کے لئے اس کا کھانا مناسب نہیں، اور اگر نذر مانی گئی ہو تو اس صورت میں صاحب نصاب کو کھانا بھی جائز نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلما کان لیلتہا من رسول اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یخرج من آخر اللیل إلی البقیع فیقول السلام علیکم دار قوم مؤمنین إلخ۔ ( أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في التسلیم عن أہل القبور والدعاء والاستغفار لہم‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۳)
إن الاراقۃ لم تعقل قربۃ بنفسہا وإنما عرفت قربۃ بالشرع والشرع ورد بہا في مکان مخصوص، أو زمان مخصوص فیتبع مورد الشرع فیتقید کونہا قربۃ بالمکان الذي ورد الشرع بکونہا قربۃ فیہ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’کتاب الحج‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص337

answered May 25, 2023 by Darul Ifta
...